Search

نیتین والیا ایک تین سالہ بچہ ہے۔ وہ اپنے والدین (وجے پال والیا اور سونیتا) کے ساتھ شاہدرہ میں رہتا ہے۔ بچہ کو چڑیا گھر دیکھنے کا شوق تھا اس کے والدین اس کو دہلی کا چڑیا گھر دکھانے کیلئے لے گئے۔ مختلف جانوروں کو دیکھتے ہوئے یہ لوگ وہاں پہنچے جہاں سفید شیر کا پنجرہ ہے۔ وہ شیر اور اس کے بچے کو دیکھنے کیلئے رکے۔ یہاں نیتین ریلنگ کے اندر داخل ہوگیا اور پنجرہ میں اپنا ہاتھ ڈال دیا۔ شیرنی نے جھپٹ کر اس کا ہاتھ اپنے منہ میں لے لیا۔ لوگوں نے اس کو لکڑی سے مار کر ہٹایا مگر اس دوران وہ بچے کا ہاتھ کندھے تک چبا چکی تھی۔ آپریشن کے بعد وہ بچہ زندہ ہے مگر وہ ساری عمر کیلئے اپنے دائیں ہاتھ سے محروم ہوچکا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کے رپورٹر کے مطابق بچہ کے والدین نے اس حادثہ کی ذمہ داری چڑیا گھر کے کارکنوں پر ڈالی ہے انہوں نے کہا کہ اس وقت پنجرہ کے پاس کوئی چوکیدار موجود نہ تھا۔ اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ جب ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو وہ فوراً اپنے سے باہر کسی کو تلاش کرتے ہیں جس پر حادثہ کی ذمہ داری ڈال سکیں۔ مگر موجودہ دنیا میں اس قسم کی کوشش سراسر بے فائدہ ہے۔ یہاں حادثات سے صرف وہ شخص بچ سکتا ہے جو اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔ جوشخص خود بے قابو ہوجائے وہ لازماً حادثہ سے دوچار ہوگا خواہ دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے کیلئے اس نے ڈکشنری کے تمام الفاظ دہرا ڈالے ہوں۔ چڑیا گھر میں خونخوار جانور کے کٹہرے سے چار فٹ کے فاصلہ پر ریلنگ لگی ہوئی ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ جانور کے مقابلہ میںآدمی کو ایک محفوظ فاصلہ پر رکھا جائے۔ اسی طرح زندگی کے ہر موڑ پر ایک ریلنگ کھڑی ہوتی ہے۔ جو شخص ریلنگ کو حد سمجھ کر وہاں ٹھہر جائے وہ محفوظ رہے گا اور جو شخص ریلنگ کو پار کرجائے۔ وہ اپنے آپ کو حادثات سے نہیں بچاسکتا۔ نہ چڑیا گھر کے اندر اور نہ چڑیا گھر کے باہر۔