ہدیہ وہ عطیہ ہے جو دوسرے کا دل خوش کرنے اورا س کے ساتھ اپنا تعلق خاطر ظاہر کرنے کےلیے دیا جائے اور اس کے ذریعے رضائے الٰہی مطلوب ہو۔ یہ عطیہ اور تحفہ اگر اپنے سےکسی چھوٹے کو دیاجائے توا س کے ساتھ اپنی شفقت کا اظہار ہے ‘اگر کسی دوست کو دیاجائے تو یہ ازدیاد محبت کا وسیلہ ہے اگر کسی ایسے شخص کودیاجائے جس کی حالت کمزور ہے تو یہ ا س کی خدمت کا ذریعہ ہے اور اگر اپنے کسی بزرگ اور محترم کو پیش کیاجائے تو ان کا اکرام ہے اور ’’نذرانہ‘‘ ہے‘اگر کسی کو ضرورت مند سمجھ کر اللہ کے واسطے اور ثواب کی نیت سے دیاجائے ‘رو یہ ہدیہ نہ ہوگا صدقہ ہوگا ۔ ہدیہ جب ہی ہوگا جبکہ اس کے ذریعے اپنی محبت اور اپنے تعلق خاطر کا اظہار مقصود ہو اور اس کے ذریعہ رضائے الٰہی مطلوب ہو ۔ ہدیہ اگر اخلاص کے ساتھ دیاجائے تو ا س کا ثواب صدقہ سے کم نہیں بلکہ بعض اوقات زیادہ ہوگا ۔ ہدیہ اورصدقہ کے اس فرق کا نتیجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہدیہ شکریہ اور دعا کے ساتھ قبول فرماتے اورا س کو خود بھی استعمال فرماتے تھے ا ور صدقہ کو بھی اگر چہ شکریہ کے ساتھ قبول فرماتے اور اس پر دعائیں بھی دیتے لیکن خودا ستعمال نہیں فرماتے تھے ‘دوسروں ہی کو مرحمت فرمادیتے تھے ۔افسوس ہے کہ امت میں باہم مخلصانہ ہدیوں کی لین دین کا رواج بہت ہی کم ہوگیا ہے ۔ بعض خاص حلقوں میں بس اپنے بزرگوں‘ اساتذہ کو ہدیہ پیش کرنے کا تو کچھ رواج ہے لیکن اپنے عزیزوں ‘ اقرباء ‘ پڑوسیوں وغیرہ کے ہاں ہدیہ بھیجنے کارواج بہت ہی کم ہے حالانکہ قلوب میں محبت والفت اور تعلقات میں خوشگواری اور زندگی میں چین وسکون پیدا کرنے اورا سی کے ساتھ رضائے الٰہی حاصل کرنے کے لیےیہ رسول اللہ ﷺ کا بتلایا ہوا “نسخہ کیمیا ” تھا ۔ اس تمہید کے بعد ہدیہ سےمتعلق رسول اللہ ﷺ کے مندرجہ ذیل چند ارشادات پڑھیے !
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” آپس میں ہدیے تحفےبھیجا کرو‘ ہدیہ تحفے دلوں کے کینے ختم کردیتے ہیں ۔” ( جامع ترمذی)۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول ودستور تھا کہ آپ ﷺ ہدیہ تحفہ قبول فرماتے تھے اور اس کے جواب میں خود بھی عطا فرماتے تھے ۔ ( صحیح البخاری )