محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم!ہم ماہنامہ عبقری کو بہت پسند کرتے ہیں اور شدت سے ہر ماہ اس کا انتظار کرتے ہیں۔ میرا تعلق بہاولپور سے ہے اور چونکہ ہمارے قریب ہی صحرا بھی ہے اور وہاں صحرائی بچھوؤں کی بھرمار ہے۔ آج میں قارئین کو اپنے دادا کا آزمودہ ٹوٹکہ بتارہا ہوں یقیناً جو صحرا میں رہتے ہیں اور کوئی ہسپتال یا ڈسپنری قریب نہیں ان لوگوں کیلئے یہ عمل انتہائی لاجواب ہے۔
دادا جان کے دور کی بات ہے کہ انہیں اگر کوئی بچھو نظر آجاتا تو وہ اس پر شیشے کی کوئی وزنی چیز رکھ دیتے اور چکنی مٹی کو لے کر اس کی کرکٹ کی گیند سے کچھ چھوٹی گیند بنالیتے‘ اسے دو ٹکڑے کرکے بیچ میں تھوڑ ی جگہ خالی کردیتے اور پھر چمٹے سے بچھو کو پکڑ کر اس گیند میں رکھ کر دونوں حصے آپس میں ملا کر گیند مکمل کردیتے‘ بچھو ڈنک مارتا رہتا اور یہ ڈنک چکنی مٹی میں سرایت کرتا رہتا۔ جب بھی کوئی آدمی روتا ہوا آتا کہ اسے بچھو نے کاٹ لیا ہے تو دادا جی وہی گیند زہریلی جگہ پر پھیر دیتے اسے فوراًہی آرام آجاتا ۔(محمد احمد‘ بہاولپور)