نادان آدمی ناموافق باتوں سے الجھتا ہے۔ دانش مند آدمی ناموافق باتوں سے دامن بچاتے ہوئے گزر جاتا ہے۔
گلاب کے پھولوںکا ایک باغ ہے۔ آپ اس میں داخل ہوتے ہیں۔ اس کی خوبصورت پتیاں اور اس کے خوشبودار پھول آپ کو متاثر کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ایسا ہوتاہے کہ اس کے کانٹے آپ کو لگ جاتے ہیں۔ آپ کا ہاتھ زخمی ہوجاتا ہے یا آپ کے کپڑے کانٹوں میں پھنس جاتے ہیں۔اب ایک صورت یہ ہے کہ گلاب کے باغ میں کانٹوں کی موجودگی کو آپ باغبان کا فعل قرار دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ یہ جانیں کہ یہ کانٹے قدرت کے قانون کا نتیجہ ہیں۔ اگر آپ کانٹوں کی موجودگی کا سبب باغبان کو سمجھیں تو آپ کے اندر نفرت اور شکایت کا ذہن ابھرے گا اور اگر آپ اس کو قانون قدرت کا نتیجہ سمجھیں تو آپ کانٹوں کی موجودگی کو بطور حقیقت تسلیم کرتے ہوئے یہ کوشش کریں گے کہ اس سے اعراض کرتے ہوئے اپنا مقصد حاصل کریں۔ ایک تشخیص سے احتجاج کا ذہن ابھرے گا اور دوسری تشخیص سے تدبیر تلاش کرنےکا۔
ہندوستان میں اکثریتی فرقہ کی طرف سے جو قابل شکایت باتیں پیش آتی ہیں ان کو مسلمانوں کے تمام لکھنے اور بولنے والے انسان کا پیدا کردہ مسئلہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ احتجاج کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مگر یہ سراسر عبث ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے گلاب کے کانٹوں کے خلاف شوروغل کیا جائے۔ گلاب کے درخت میں کانٹے بہرحال رہیں گے اسی طرح انسانی سماج میں ایک دوسرے کو تلخ باتیں بھی ضرور پیش آئیں گی۔ان تلخ اور قابل شکایت باتوں کا حل صرف ایک ہے۔ ان سے اعراض کرنا‘ ان کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے سفرحیات پر رواں دواں رہنا۔ اس قسم کے سماجی مسائل خود اللہ کے تخلیقی منصوبہ کا حصہ ہیں اس لیے وہ کبھی ختم نہیں ہوسکتے۔ البتہ ان کی موجودگی کو گوارا کرکے ہم اپنی زندگی کے سفر کو ضرور جاری رکھ سکتے ہیں۔
نادان آدمی ناموافق باتوں سے الجھتا ہے۔ دانش مند آدمی ناموافق باتوں سے دامن بچاتے ہوئے گزر جاتا ہے۔ یہی ایک لفظ میں‘ اس دنیا میں ناکامی اور کامیابی کا راز ہے۔ یہاں الجھنے کا انجام ناکامی ہے اور نظرانداز کرنے کا انجام کامیابی ہے۔