Search

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا غیر مسلموں سے حسن سلوک جب کفار مکہ کا سلسلہ ایذا رسانی کسی طرح ختم ہوتا نظر نہ آیا تو مظلوم صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ، قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ ، مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ اور چند دوسرے اخیار رضی اللہ عنہم نے آستانِ نبوت میں حاضر ہو کر التماس کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جب ہم مشرک تھے تو سب ہمارا اعزاز و اکرام کرتے تھے اور ہماری طرف کوئی نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن جب سے ہم نے دین حق کی پیروی اختیار کی ہے ہمیں سخت ایذائیں دی جاتی ہیں اور ہماری سخت تحقیر ہوتی ہے۔ اس لیے اگر حکم ہو تو ہم بھی اشرار اور معاندین سے نمٹ لیا کریں۔ شفیق ِ انام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تو یہی حکم ہے کہ ان کی خطاﺅں کو معاف کروں پس صبر کرو اور کسی پر ہاتھ نہ اٹھاﺅ اور اگر کوئی زیادتی کرے تو اس کو معاف کردو۔ الغرض آپ نے کسی طرح انتقام کی اجازت نہ دی (نسائی) قابو پانے کے بعد معاف کر دینے کی تلقین حضرت سلمہ بن اکوع صحابی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں مدینة الرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے غابہ کی طرف جارہا تھا جب پہاڑی پر پہنچا تو مجھے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ایک غلام ملا۔ میں نے پوچھا تم یہاں کہاں؟ اس نے کہا قزاق پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی لے گئے ہیں اور میں ان کی تلاش میں آیا ہوں۔ میں نے پوچھا کون لوگ لے گئے ہیں؟ غلام نے کہا غظفان اور فزارہ کے آدمی۔ یہ سن کر میں تین مرتبہ بلند آواز سے چلایا ’ہم صبح کے وقت لٹ گئے ،اس کے بعد میں غلام کی نشاندہی پر دوڑا اور ان کو جا لیا۔حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے یہ رجز پڑھتے ہوئے ڈاکوﺅں پر تیر باری شروع کر دی:’میں اکوع کا بیٹا ہوں، اور آج کا دن دشمنوں کی ہلاکت کا دن ہے، ڈاکو تیر باری کی تاب نہ لا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ میں نے اونٹنی لی اور اس کو ہانک کر واپس لایا۔ راستہ میں حضور سرور کون و مکان صلی اللہ علیہ وسلم ملے۔ میں نے کہا یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ! اس سے پیشتر کہ قزاق اس کا دودھ پی سکیں، میں نے اونٹنی واپس لے لی۔ اب چند آدمیوں کو ان کے تعاقب میں بھیج دیجئے کہ ان کو گرفتار کر لائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن اکوع! جب تم دشمن پر قابو پاﺅ تو اس کو معاف کر دیا کرو (بخاری)