Search

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا غیر مسلموں سے حسن سلوک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ” تم لو گ امعہ نہ بنو کہ یہ کہنے لگو کہ لو گ اچھا سلو ک کریں گے تو ہم بھی اچھا سلوک کریں گے اور لو گ برا سلوک کریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ ظلم کریں گے بلکہ اپنے آپ کو اس کا خوگر بناﺅ کہ لو گ اچھا سلوک کریں گے تب بھی تم اچھا سلوک کرو اور لوگ برا سلو ک کریں تو تم ان کے ساتھ ظلم نہ کر و۔ “آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی صورت میں مطلو ب زندگی کا جو نقشہ دوسروں کے سامنے پیش کیا ،خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی نقشہ میں ڈھل گئے ۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی لیکن کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اف تک نہ کہا اور نہ کبھی میرے کسی کام کی بابت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے ایسا کیو ں کیا اور جو کام میں نے نہیں کیا اس کی بابت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی یہ نہ فرمایا کہ تم نے اس کو کیو ں نہ کیا؟ وہ تمام لوگوں میں سب سے زیا دہ اچھے اخلا ق والے تھے ۔ طائف مکہ کے جنو ب مشرق میں 65 میل کے فا صلے پر ایک سر سبز و شاداب بستی تھی ۔ یہ صحت افزا مقام بھی تصور کیا جا تا تھا ، اسی وجہ سے مکہ کے رﺅ سا کی کو ٹھیا ں بھی وہا ں تھیں ۔ وہا ں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض رشتہ دار بھی سکونت پذیر تھے ۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ اور ابو طا لب کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خادم سید نا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کوساتھ لے کر طائف پہنچے ۔ اس وقت وہا ں کی آبادی میں تین ممتا ز سر دار تھے ۔ عبد یا لیل ، مسعود اور حبیب ۔ آپ ان تینوں سے ملے ۔ لیکن ہر ایک نے آپ کا ساتھ دینے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حما یت کرنے سے انکا ر کر دیا ۔ ان میں سے ایک شخص نے کہا : خدا نے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسو ل بنایا ہو تو میں کعبہ کا پردہ پھا ڑ ڈالو ں ۔ “ دوسرے نے کہا : ” خدا کو کیا تمہارے سوا کوئی نہ ملا تھا ، جس کو وہ رسول بنا کر بھیجتا “تیسرے نے کہا : ” خدا کی قسم ، میں تم سے بات نہیں کر و ں گا ۔ اگر تم اللہ کے رسول ہو تو تمہا را جواب دینا گستا خی ہے اور اگر تم اپنے دعوی میں جھوٹے ہو تو میرے لیے منا سب نہیںکہ میں تم سے با ت کروں“ (جاری ہے )