محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم!عبقری رسالہ کافی عرصہ سے پڑھ رہا ہوں اور اس میں وقتاً فوقتاً لکھتا بھی ہوں اور الحمدللہ! میری تحریری شائع بھی ہوتی ہیں اور میں مطمئن بھی ہوں کہ میرے قلم سے نکلے الفاظ سے لوگوں کو فیض مل رہا ہے۔آج بھی حسب روایت مکافات عمل کے متعلق ایک تحریر لیکر حاضر ہوا ہوں۔ یقیناً قارئین غور فرمائیںگے۔
انتہائی حلیم الطبع آور درویش صفت عالم دین کی ضعیف العمر بیوہ نے محلے کی دو خواتین کو بتایا میری بہو نے ایک روز مجھے بازو سے پکڑا اور کھینچتی اور گھسیٹتی ہوئی اوپر کی منزل میں لے گئی اور کمرے میں مجھےزور سے پٹخ کر پھینکا اور سخت غصے میں کہا اب تم اوپر ہی رہا کرو نیچے مت آنا تم ہر معاملے میں دخل دیتی ہو زندگی حرام کردی ہے تم نے۔ اور پھر بات بات پر قہقہے لگانے والی اور ڈھولکی بجانے کی شوقین یہ خاتون پچاس سال کی عمر میں کینسر میں مبتلا ہوکر اس وقت فوت ہوگئی جب اس کی دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کی شادیاں ابھی ہونی تھیں موت سے پہلے وہ لمبے عرصے تک شدید تکلیف میں مبتلا رہی۔ اس المناک صورتحال کو جنم دینے میں اس خاتون کے خاوند کا بھی گہرا عمل دخل ہے جو نمازوں کو کندچھری سے ذبح کرتا تھا یعنی رکوع و سجودسے گویا مذاق کرتا تھا اور خلق خدا سے جس کا رویہ مکمل بیگانگی اور رعونت پر مبنی تھا۔