حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ میں نے آقا و مولیٰ ﷺ سے شکایت کی کہ لوگ مجھ سے حسد کرتے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے لوگوں میں چوتھے تم ہو؟ وہ چار لوگ مَیں (ﷺ)، تم، حسن اور حسین (رضی اللہ عنہم اجمعین)ہیں۔ (مسند احمد)
حضرت براء بنِ عازب رضی اللہ عنہٗ اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہٗ سےر وایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ خمِ غدیر پر اترے تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: کیا تم جانتے نہیں کہ میں ہر صاحب ایمان سے اس کی جان سے بھی زیادہ قریب ہوں؟ لوگ عرض گزار ہوئے‘ کیوں نہیں؟ فرمایا: کیا تم جانتے نہیں کہ میں مسلمانوں کا اُن کی جان سے بھی زیادہ مالک ہوں؟ عرض کیا: کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! جس کا میں(ﷺ) دوست ہوں‘ اس کے علی (رضی اللہ عنہٗ)بھی دوست ہیں۔ اے اللہ! اس سے دوستی رکھ جو ان سے دوستی رکھے اور اس سے دشمنی رکھ جو ان سے دشمنی رکھے۔ اس کے بعد سیدنا عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اُن سے ملے تو فرمایا: اے ابنِ ابی طالب! آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو مبارک ہو کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ہر صبح و شام ہر ایمان والے مردو عورت کے دوست ہیں۔ (مسند احمد، مشکوٰۃ)