محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میرے پاس لفظ نہیں نہ ہی الفاظ کا مجموعہ ہیں جو آپ کو دعائیں لکھ سکوں‘ مگر الحمدللہ کیفیات ضرور ہیں جن کی قلم محتاج نہیں‘ اللہ کریم آپ کو عزتوں کی دنیا سدا عطا رکھے۔آپ کا ہر درس توجہ اور دھیان سے سنتی ہوں۔ درس نے میری بہت سی مشکلات حل کی ہیں۔ ابھی کل ہی آپ کا درس سنا جس میں آپ نے درس جذبات سے پُر دیا تھا کہ ہمیں ہروقت اپنے جذبات کو پرکھتے رہنا چاہیے اس کو سننے کے بعد میں اللہ تعالیٰ کے آگے جھک گئی اور اللہ کے پاس گئی‘ دروازہ بند تھامگر میں نے کھٹکھٹایا‘ بہت زور زور سے کھٹکھٹایا‘ میں اکیلی نہیں تھی‘ میرے ساتھ میری زندگی کے غلیظ‘ آلودہ‘ بُرے جذبات بھی ساتھ تھے‘ پھر ہم سب تھک گئے اور بیٹھ گئے پھر بھی دروازہ نہ کُھلا‘ پھر آنسو بھی
ہمارے ساتھ آگئے اور ہم عاجزی کے ساتھ طاقتور رب کے سامنے! حضرت جی سوچیں کیا منظر تھا کہ میں، میرا رب، اور ایک طرف میرا ساتھی میرے آنسو اور دوسری طرف جذبات! پھر عدالت لگی‘ میں کٹہرے میں کھڑی تھی اپنی من چاہی اور اپنے جذبات پر عاجز تھی۔۔۔ اور رب سے معافی کی درخواست کی۔ اس کے بعد میں سوگئی اور رات خواب میں مدینہ منورہ دیکھا اور کعبۃ اللہ دیکھا اور خانہ کعبہ میرے اتنے نزدیک تھا جیسے میری آنکھوں کے بالکل سامنے‘ بس فاصلہ ایک انگلی جتنا تھا ہم دونوں میں۔۔۔ صبح اٹھ کر میں نے یاقہار کا عمل کیا اور پھر فیصلہ ہوگیا۔۔۔ اللہ کریم نے مجھے معاف کردیا اور رب چاہی کی تلقین کی اور سکون کے سمندر میں ڈوب گئی۔ الحمدللہ الحمدللہ الحمدللہ! اب الفاظ نہیں‘ سب ختم ہوگئے۔ بس صرف دعاؤں کی طالب ہوں‘ محتاج ہوں‘ منگتی ہوں۔ (فلک امجد)