Search

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا غیرمسلموں سے حسن سلوک ایک مرتبہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ یمن تبلیغ کیلئے بھیجے گئے تو وہ وہاں ناکام رہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں بھیجنے کیلئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا انتخاب کیا‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پہلے تو اس کام کو دشوار سمجھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینہ پر دست مبارک رکھ کر دعا فرمائی کہ ”اے خدا! اس کی زبان کو راست گو بنا اور اس کے دل کو ہدایت کے نور سے منور کردے۔“ اس کے بعد ان کے سر پر عمامہ شریف باندھا اور سیاہ علم دے کر یمن کی طرف روانہ کیا‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے حسن تدبیر اور حسن سلوک سے وہاں کا رنگ کچھ ایسا بدل دیا کہ ہمدان کا پورا قبیلہ مسلمان ہوگیا۔(فتح الباری‘ خلفائے راشدین) خارجی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف برابر سازش کرتے رہے‘ وہ مجوسیوں‘ مرتدوں‘ نومسلموں اور ذمیوں کو بغاوت پر آمادہ کرتے رہے مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان بغاوتوں کو بڑے صبروتحمل سے فروکیا اور جب وہ زیر ہوگئے تو ان سے لطف و ترحم کا برتائو کیا‘ ایرانی باغی ان کے فیاضانہ سلوک سے یہ کہہ اٹھے تھے کہ امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہءبن ابی طالب کے طریق جہاں بانی نے تو نوشیروانی طرز حکومت کی یادبھلادی۔ ذمیوں کے ساتھ ہمیشہ شفقت و محبت کا برتائو رکھا‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے جتنے معاہدے کیے تھے ان کو برقرار رکھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فیضانہ سلوک کی اعلیٰ ترین مثال وہ ہے جب ان کا قاتل ابن بلجم ان کے بستر مرگ کے پاس لایا گیا تو اس کو دیکھ کر فرمایا: اس کو اچھا کھانا کھلائو ‘ اس کو نرم بستر پر سلائو اگر میں زندہ بچ گیا تو اس کو معاف کرنے یا قصاص لینے کا اختیار مجھے حاصل ہوگا اور اگر میں مرگیا تو خدا کے سامنے اس سے جھگڑلوں گا۔ پھر یہ بھی وصیت کی کہ اس سے قصاص معمولی طور پر لیا جائے یعنی اس کے ہاتھ پائوں وغیرہ نہ کاٹے جائیں۔(طبقات تذکرہ علی بن ابی طالب)