Search

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب بنوتغلب مغلوب ہوئے تو وہ اپنے قدیم مذہب کو ترک کرنے کیلئے راضی نہ تھے‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ ان پر کسی قسم کا دباو نہ ڈالا جائے اور وہ اپنے مذہب کی پیروی میں آزاد ہیں‘ البتہ اگر ان میں سے کسی شخص نے اسلام قبول کرنا چاہا تو کوئی شخص مزاحمت کا مجاز نہ ہوگا اور نہ ایسے لوگوں کے بچوں کو جو مسلمان ہوگئے ہیں‘ اصطباغ دے سکیں گے۔ (طبری) قبیلہ بکر کے ایک شخص نے حیرہ کے ایک عیسائی کو مار ڈالا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لکھ بھیجا کہ قاتل مقتول کے وارثوں کو دے دیا جائے چنانچہ وہ شخص مقتول کے وارث کو جس کا نام حنین تھا حوالہ کیا گیا اور اس نے اس کو قتل کرڈالا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی کے زمانہ کا ایک بہت ہی دلچسپ واقعہ یہ بھی ہے کہ ایران کے ہرمزان نے کئی دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سپہ سالار حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے صلح کی تھی اور ہمیشہ اقرار سے پھر جاتا تھا شوستر کے معرکہ میں دو بڑے مسلمان اس کے ہاتھ سے مارے گئے‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان باتوں کا اس قدر رنج تھا کہ انہوں نے ہرمزان کے قتل کا پورا ارادہ کرلیا، تاہم اتمام حجت کے طور پر عرض ومعروض کی اجازت دی، اس نے کہا : عمر! جب تک اللہ ہمارے ساتھ تھا تم ہمارے غلام تھے، اب اللہ تمہارے ساتھ ہے ہم تمہارے غلام ہیں، یہ کہہ کر پینے کا پانی مانگا، پانی آیا تو پیالہ ہاتھ میں لے کر درخواست کی کہ جب تک پانی نہ پی لوں مارا نہ جاوں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے درخواست منظور کر لی، اس نے پیالہ ہاتھ سے رکھ دیا اور کہا کہ میں پانی نہیں پیتا، اس لیے شرط کے مطابق تم مجھے قتل نہیں کرسکتے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس مغالطہ پر حیران رہ گئے، پھر ہرمزان نے کلمہ توحید پڑھا اور کہا میں پہلے ہی اسلام لاچکا تھا لیکن میںنے یہ تدبیر اس لیے کی کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ میں نے تلوار کے ڈر سے اسلام قبول کیا ہے۔ ۔