Search

مورخ ابن ہشام نے نقل کیا ہے کہ سرداران قریش، ابوسفیان بن حرب، ابوجہل بن ہشام، اخنس بن شریق اور ابن وہب الثقفی یہ چاروں ایک رات الگ الگ نکلے تاکہ چھپ کر قرآن کی تلاوت سنیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے دوران اپنے گھر میں کیا کرتے تھے۔ ان میں سے ہر شخص نے اپنے لئے ایک ایک جگہ مقرر کر لی اور بیٹھ کرآپ کی تلاوت سننے لگا۔ ہر شخص دوسرے کی موجودگی سے بے خبر تھا۔ اس طرح انہوں نے ساری رات گزاردی اور پھر اپنی اپنی راہ لی۔ راستے میں سب جمع ہوگئے۔ سب ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے۔ ہر ایک نے دوسرے سے کہا دیکھو دوبارہ ایسا نہ کرنا اگر کم عقل لوگوں نے دیکھ لیا تو وہ کیا خیال کریں گے، پھر وہ سب لوٹ گئے۔ جب دوسری رات ہوئی تو وہ چاروں پھر اپنی اپنی جگہ پر تلاوت سننے واپس آگئے اور جب وہ تلاوت سن کر واپس ہوئے تو پھر سب جمع ہوگئے۔ ان میں سے ہر ایک نے دوسرے کو پھر ویسے ہی کہا جیسے پہلے کہا تھا یہ کہہ کر سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ لیکن جب تیسری رات ہوئی تو پھر وہ اپنی اپنی جگہ آپہنچے اور واپسی پر پھر اسی طرح باہم مل گئے تب انہوں نے کہا: ہماری یہ عادت نہیں چھوٹے گی، جب تک ہم عہد یہ نہ کرلیں کہ ہم دوبارہ ایسا نہیں کرینگے اور پھر باہمی عہد کرکے منتشر ہوگئے۔ تلاوت سے جادوگر کا قبول اسلام یمن سے ایک شخص خماد ازدی مکہ آیا جو مشہور جادوگر تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سن کر اس نے قریش سے کہا اگر تم کہو تو میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا علاج کرسکتا ہوں۔ چنانچہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا ”محمد آﺅ میں تمہیں اپنے منتر سناﺅں“۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پہلے تم مجھ سے سن لو۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قرآن سنایا، خماد ازدی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سن کر کہا کہ حضور ایک بار اور سنا دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سنایا۔ اس نے ایک بار پھر سننے کی فرمائش کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سنایا۔ بالآخر وہ بول اٹھا میں نے بہت سے کاہن دیکھے ، ساحر دیکھے، شاعر دیکھے لیکن ایسا کلام تو کسی سے بھی نہیں سنا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ بڑھائیے میں اسلام قبول کرتا ہوں۔ طفیل بن عمرو کا قبول اسلام طفیل بن عمرو دوسی مشہور شاعر تھے۔ وہ اپنے اسلام لانے کی روئیداد کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔ جب میں مکہ میں گیا تو بزرگوں نے میرے کان بھرے اور کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بچ کر رہنا، چنانچہ میں نے پہلے ہی طے کرلیاکہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بچ کر رہوں گا لیکن قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ جب میں حرم میں پہنچا تو وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے۔ میرے کان میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند جملے پڑگئے، میں نے اچھا محسوس کیا اور دل میں کہا کہ میں بھی شاعر ہوں اورنوجوان مرد ہوں، عقل رکھتا ہوں، بچہ تو نہیں کہ غلط صحیح کی تمیز ہی نہ کرسکوں۔ اس شخص سے ملنا تو چاہئے، چنانچہ میں بھی ان کے پیچھے ان کے مکان میں پہنچ گیا اور اپنی ساری کیفیت بیان کی اور عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذراتفصیل سے بتائیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کہتے ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کے جواب میں مجھے قرآن کا کچھ حصہ سنایا اور میں اتنا متاثر ہوا کہ اسی وقت ایمان لے آیا اور واپس جاکر اپنے باپ اور بیوی کو بھی مسلمان کیا اور پھر اپنے قبیلے میں مسلسل تبلیغ اسلام کرتا رہا۔