Search

ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میری توبہ کی وجہ یہ ہوئی کہ ایک مرتبہ قحط کے زمانہ میں میں نے ایک غلام کو دیکھا کہ نہایت ہی خوش ہے‘ میں نے پوچھا کہ دنیا میں تو قحط ہے اور تو ایسا خوش ہے۔ کہنے لگا: میں فلاں شخص کا غلام ہوں‘ میرا کھانا کپڑا اس کے ذمہ ہے اور اس کا ایک گاؤں ہے‘ اس سےآمدنی آجاتی ہے‘ میں بالکل بےفکر ہوں۔یہ سن کر میرے دل پر چوٹ لگی کہ تیرے مالک کے پاس تو زمین اور آسمان کے خزانے ہیں تو پھر اس قدر فکرمند ہے تو واقعی جب خدا سے نزدیک بڑھ جاتی ہےتو بے فکری ہوجاتی ہے۔ دیکھئے! معمولی سے مالدار کے ساتھ تعلق ہوجانے سےکیسی بے فکری ہوجاتی ہے تو جو تمام خزانوں کا مالک ہے اس کے ساتھ تعلق رکھنے سے بے فکری کس طرح نہ ہو۔ دکھلاوے کی عاجزی:عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے دسترخوان پر جذام، برص وغیرہ کے مریضوں کو نہ ہٹاتے بلکہ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے اور فرماتے: اصل تواضع یہ ہے کہ حقیر لوگوں کے ساتھ بیٹھیں مگر یہ کسی حظ نفسانی کے لیے نہ ہو۔ بعض لوگ جوتیوں کے پاس بیٹھتے ہیں مگر ان کے دل میں اتنا تکبر ہوتا ہے اس جگہ بیٹھنے پر ان کو صرف یہ بات ترغیب دیتی ہے کہ لوگ انہیں متواضع کہیں گے۔(فرزانہ صغیر‘ سرگودھا)