پوچھا گیا کہ کیوں جانا ہے‘ وہاں جانا بڑا مشکل ہے‘ بڑے بڑے خطرناک جنگلات ہیں۔
حضرت یحییٰ اندلس (اندلس جو کسی وقت میں علم و فن خصوصاً علم حدیث کا مرکز تھا) وہاں حدیث پاک کا درس دیتے تھے اور بے شمار اشخاص ان سے استفادہ کرتے تھے۔ ایک دن حضرت یحییٰ نے پڑھانےکی طویل چھٹی کردی۔ طلباء سے معلوم کیا کہ حضرت اتنی طویل چھٹی جس کی مدت کا بھی تعین نہیں کس بنا پر کی گئی۔ فرمایا: مجھے افریقہ کے آخری کنارے قیروان جانا ہے۔ پوچھا گیا کہ کیوں جانا ہے‘ وہاں جانا بڑا مشکل ہے‘ بڑے بڑے خطرناک جنگلات ہیں۔فرمایا: ایک نقال لالہ کے میری طرف ساڑھے تین آنے یعنی ایک درہم ہے۔ ان کے ادا کرنے کیلئے جارہا ہوں‘ لوگوں نے کہا حضرت ایک درہم ہی تو ہے۔ فرمایا کہ مجھے ایک حدیث پہنچی ہے اور پھر اپنی سند کے ساتھ حدیث پڑھی کہ چھ لاکھ کا نفلی صدقہ کرنے میں اتنا ثواب نہیں جتنا ایک درہم حق والے کا حق دا کرنے میں ہے۔ اللہ پاک ہمیں بھی دوسروں کے حقوق ادا کرنے والا بنائے اور جن لوگوں کے حقوق ہمارے سر ہیں یا قرض ہے ہمیں وہ فوراً ادا کرنے کی توفیق فرمائے تاکہ کل ہم اللہ کے حضور ان تمام حقوق سے سرخرو ہوکر پہنچیں اور کامیاب ہوں۔ (ماخوذ از کتاب: اسلام میں امانت داری کی حیثیت) (انتخاب: بندہ خدا‘ واہ کینٹ)