Search

حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر چیز کا توڑ ہے۔ یہاں خطرات کے مقابلہ میں ہمیشہ امکانات کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ بشرطیکہ مسائل پیش آنے کے بعد آدمی اپنی ہمت کو نہ کھوئے۔ وہ خدا کی دی ہوئی عقل کو استعمال کرکے خطرہ کا توڑ دریافت کرسکے۔یہی بات حدیث میں ان لفظوں میں کہی گئی ہے کہ ’’ایک مشکل دو آسانی پر ہرگز غالب نہیں آسکتی‘‘ یعنی اس دنیا میں اگر عسر (مشکل) ایک ہے تو اس کے مقابلہ میں یسر (آسانی) کی مقدار اس کا دگنا ہے۔ یہاں اگر ایک راستہ میں رکاوٹ حائل ہوتی ہے تو وہیں دوسرا راستہ آگے بڑھنے کیلئے کھلا ہوا ہوتا ہے۔ایسی حالت میں فریاد اور احتجاج نہ صرف بے فائدہ ہے بلکہ وہ خود خدا کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ یہ خدا کی خدائی کی تصغیر ہے۔ فریاد و احتجاج کرنے والا شخص بیک وقت دو نقصان کرتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ اپنی ناکامی کو دوبارہ کامیابی بنانے کے امکان کو استعمال کرنے سے محروم رہ جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ خدا کی نظر میں اس بات کا مجرم قرار پاتا ہے کہ اس نے ایک کامل دنیا کو ناقص دنیا بنانے کی جسارت کی۔حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا اتھاہ امکانات کی دنیا ہے۔ ماضی کی کوئی کوتاہی مستقبل کے مواقع کو برباد نہیں کرتی۔ دشمن کی کوئی کاروائی ایک نئی برتر کاروائی کے امکان کو ختم نہیں کرتی۔ ہرنقصان کے بعد یہ موقع بدستور باقی رہتا ہے کہ آدمی ازسر نو کوشش کرکے دوبارہ اپنے آپ کو کامیاب بنالے۔آدمی کو چاہیے کہ وہ ماضی کی طرف دیکھنے کے بجائے مستقبل کی طرف دیکھے۔ وہ ہر کھونے کے بعد دوبارہ پانے کی کوشش کرے۔ وہ ہاری ہوئی بازی کو محنت اور عمل کے ذریعہ ازسر نو جیت لے۔