Search

والدہ کی مرضی سے میری شادی گائوں میں کردی گئی اس وقت میں پڑھ رہی تھی اب میرا مسئلہ گائوں کا ماحول اور اپنے سسرال والوں کی سوچ ہے۔ میں وہاں اپنی مرضی سے اپنے کمرے میں نہیں بیٹھ سکتی، نہ کوئی کتاب پڑھ سکتی ہوں کیونکہ اس کا وہ لوگ برا مانتے ہیں کہ میں الگ ہونا چاہتی ہوں اس لیے علیحدہ بیٹھی ہوں یہا ں کی عورتیں سارا دن کام کرتی ہیں مرد پانی کا گلاس بھی خود نہیں اٹھاتے۔ میرے شوہر کمرے میں بسکٹ لاکر بھی نہیں رکھ سکتے۔ میں اپنی مرضی سے چائے بناکر نہیں پی سکتی۔ والدہ کہتی ہیں گزارا کرو۔ آج کل اپنی خالہ کے گھر ہوں یہاں ہر سہولت ہے ‘سسرال میں بہت سے مسائل ہیں اور ان کا کوئی حل سمجھ میں نہیں آتا، خالہ کہتی ہیں طلاق لے لو۔ (خ ۔ا، شیخوپورہ)
مشورہ:شادی کے بعد لڑکیوں کی زندگی میں بہت سی تبدیلیاں آتی ہیں، ان میں سسرال کے ماحول کے حوالے سے پیش آنے والے مسائل یقیناً اہم ہیں لیکن ان کی وجہ سے طلاق نہیں لینی چاہیے کیونکہ وقت کے ساتھ اچھی تبدیلی بھی آتی ہے۔ شوہر اچھے، آپ کے ہم خیال اور محبت کرنے والے ہیں تو ماحول پر ابھی صبر کریں جو کام درست ہیں انہیں کرنے کی ہمت بھی ضرور کرتی رہیں۔ مثلاً کتاب پڑھنا ہے تو نہ یہ کہ خود پڑھیں بلکہ گھروالوں اور اردگرد کے بچوں کو بھی ابتدائی تعلیم دینے کا آغاز کریں۔ آج کل ان پڑھ والدین بھی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے تعلیم حاصل کرسکیں، بسکٹ وغیرہ منگوا کر گھر کے بچوں کو دیں، کسی سے خیال رکھوانے اور ہمدردی حاصل کرنے کے لیے دلوں میں جگہ بنانی ہوتی ہے۔