Search

ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے لشکر کیساتھ ہوا میں اڑتے ہوئے جارہے تھے نیچے گہرا سمندر تھا۔ سمندر میں خطرناک موجیں اٹھ رہی تھیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہوا کو حکم دیا تو وہ پھیل گئی‘ جنات کو سمندر میں غوطہ لگا کر اندر کی حالت معلوم کرنے کیلئے بھیجا جب وہ واپس آئے تو بتایا کہ نیچے سمندر میں ایک موتیوں کا بنا ہوا قبہ ہے اور اسکا کوئی دروازہ بھی نہیں ہے۔ آپ نے حکم دیا کہ اس کو باہر لے کر آئو جنات اس کو سمندر سے نکال لائے اور حضرت کے سامنے رکھ دیا جس کو دیکھ کر وہ بہت حیران ہوئے اور اللہ رب العزت سے دعا مانگی جس سے قبہ کا دروازہ کھل گیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے قبہ کے اندر ایک نوجوان کو دیکھا جو اللہ پاک کی عبادت کررہا تھا۔ حضرت نے اس نوجوان سے پوچھا ”تم فرشتے ہویا جن ہو؟“ اس نے کہا نہ میں فرشتہ ہوں نہ جن بلکہ میں انسان ہوں۔ حضرت نے سوال کیا اس قبہ میں تمہیں کھانا وغیرہ کیسے ملتا ہے۔ نوجوان نے کہا جب مجھے بھوک لگتی ہے تو پتھر سے ایک درخت نکلتا ہے اس درخت پر ایسا پھل لگتا ہے جس میں دودھ سے زیادہ سفید شہد سے زیادہ میٹھا اور برف سے زیادہ ٹھنڈا پانی ہوتا ہے۔ میں وہ پھل کھا لیتا ہوں اور پانی پی لیتا ہوں جب میرا پیٹ بھر جاتا ہے تو پھر وہ درخت خود ہی غائب ہوجاتا ہے پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے پوچھا کہ ”تمہیں اس میں دن اور رات کا کیسے پتہ چلتا ہے؟“ نوجوان نے عرض کیا حضرت! مجھے یہ بزرگی اپنی ماں کی خدمت اور ان کے ساتھ اچھا برتائو کرنے کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔ میں اپنی بوڑھی ماں کو کمر پر اٹھائے رکھتا تھا اور وہ میرے لیے یہ دعا مانگتی تھی۔ ”اے میرے معبود تو اس کو نیک بخت بنا میرے مرنے کے بعد اس کو ایسی جگہ پر ٹھہرا جو نہ زمین میں نہ ہی آسمان میں اور ماں کے فوت ہوجانے کے بعد ایک دن میں سمندر کے کنارے گھوم رہا تھا تو مجھے سفید موتی کا ایک چمکدار قبہ نظر آیا جب میں اس کے قریب گیا تو اس کا دروازہ کھل گیا اور میں اس کے اندر چلا گیا اور پھر دروازہ بند ہوگیا مجھے نہیں معلوم کہ اب میں زمین ہوں یا آسمان میں یا پھر کھلی ہوا میں اسی میں رزق مل جاتا ہے پھر حضرت نے دعا فرمائی اور وہ قبہ سمندر میں چلا گیا۔