حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب شام کی مہم پر لشکر روانہ کیا تو امیر لشکر کو مخاطب کرکے فرمایا: ”تم ایک ایسی قوم کو پائوگے جنہوں نے اپنے آپ کو خدا کی عبادت کیلئے وقف کردیا ہے ان کو چھوڑ دینا‘ میں تم کو دس وصیتیں کرتا ہوں کسی عورت‘ کسی بچے اور بوڑھے کو قتل نہ کرنا‘ پھلدار درخت کو نہ کاٹنا‘ کسی آباد جگہ کو ویران نہ کرنا‘ بکری اور اونٹ کھانے کے سوا بیکار ذبح نہ کرنا۔ نخلستان نہ جلانا‘ مال غنیمت میں غبن نہ کرنا اور بزدل نہ ہوجانا۔
غیرمسلموں کے حقوق کی نگہبانی
ان کے زمانہ میں جو ممالک فتح ہوئے وہاں کی غیرمسلم آبادی کو اپنی پناہ میں لے کر ان کے حقوق کی نگہبانی کا پورا ذمہ لیا‘ ذمیوں کو جو حقوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دئیے تھے وہی انہوں نے بھی دئیے جب حیرہ فتح ہوا تو وہاں کے عیسائیوں سے یہ معاہدہ کیا گیا کہ ان کی خانقاہیں اور گرجے منہدم نہ کیے جائیں گے‘ ان کا وہ قصر نہ گرایا جائےگا جس میں وہ ضرورت کے وقت دشمنوں کے مقابلہ میں قلعہ بند ہوتے ہیں ان کو ناقوس اور گھنٹے بجانے کی ممانعت نہ ہوگی‘ تہوار کے موقع پر صلیب نکالنے سے روکے نہ جائیں گے‘ کوئی بوڑھا آدمی جو کام سے معذور ہوجائے یا کوئی سخت مرض میں مبتلا ہو کہ مجبور ہوجائے یا جو پہلے مالدار ہو پھر ایسا غریب ہوجائے کہ خیرات کھانے لگے تو ایسے لوگوں سے جزیہ نہیں لیا جائے گا اور جب تک وہ زندہ رہیں ان کے اہل وعیال کے مصارف مسلمانوں کے بیت المال سے پورے کیے جائیں۔ البتہ وہ کسی دوسرے ملک میں چلے جائیں تو ان کے اہل وعیال کی کفالت مسلمانوں کے ذمہ نہ ہوگی۔ اس معاہدہ میں یہ بھی تھا کہ یہاں کے ذمیوں کو فوجی لباس پہننے کے علاوہ ہر طرح کی پوشاک پہننے کی اجازت ہوگی‘ بشرطیکہ وہ مسلمانوں سے مشابہت پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں۔ مشابہت سے احتراز کرنے کی ہدایت اس لیے دی گئی کہ مسلمانوں اور ذمیوں میں فرق باقی رکھ کر ان کی یعنی ذمیوں کی پوری حفاظت کی جائے۔