Search

انسانی دماغ کے اعصابی خلیات صرف ایک دن میں دنیا بھر کی ٹیلی فون کالز سے زیادہ بجلی کے جھماکے پیدا کرتے ہیں۔ دنیا میں صرف درجن بھر کے قریب افراد کا بلڈ گروپ A.H ہے۔ جو بہت نایاب ہے۔ 30 سال کے بعد ہمارے دماغ میں اعصابی خلیات کی تعداد 50 ہزار یومیہ کے حساب سے کم ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ خون کے سرخ خلیات 4 ماہ کے اندر ختم ہوجاتے ہیں۔ مگر اس سے پہلے وہ پورے جسم کا ہزاروں مرتبہ چکر لگاچکے ہوتے ہیں۔ انسانی دل دو دھڑکنوں کے درمیان آرام کرتا ہے اور یوں 70 سال کی مدت میں 40 سال آرام کرتا ہے۔ انسانی زبان پر ذائقے کے غدود کی عمر 7 سے 10 دن ہوتی ہے پھر اس کی جگہ نئے غدود پیدا ہوجاتے ہیں۔ انسانی آنکھ کے قرنیے میں خون کی نالیاں نہیں ہوتیں بلکہ یہ براہ راست ہوا سے آکسیجن لیتا ہے۔ ہر 27روز بعد ہماری جلد کے نئے خلیات بنتے ہیں یوں ہر ماہ ہم اپنی کھال بدل لیتے ہیں۔ انسانی جسم کی سب سے لمبی ہڈی ران میں ہوتی ہے جس کی لمبائی 48 سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ انسانی جسم میں تقریباً 600 پٹھے پائے جاتے ہیں جو اس کے وزن کا 40 فیصد حصہ بناتے ہیں۔ بالغوں کے جسم میں 206 ہڈیاں اور ننھے بچوں میں 300 ہڈیاں ہوتی ہیں۔ پھر عمر کیساتھ ساتھ ہڈیاں جڑ کر ان کی تعداد کم ہوجاتی ہے۔ ایک چھ سالہ بچہ دن میں 200 مرتبہ تک ہنستا ہے جبکہ بالغ افراد 15 سے 100 مرتبہ ہی ہنستے ہیں۔ انسانی چھینک کے نتیجے میں ناک سے نکلنے والی ہوا کی رفتار 100 میل فی گھنٹہ تک ہوسکتی ہے۔ انسانی آنکھ میں روشنی سے حساس خلیات کی تعداد 13 کروڑ 70 لاکھ سے زیادہ ہوتی ہے۔ دیکھنے کے عمل میں انسانی آنکھ کا پردہ کمپیوٹر کی طرح 10 ارب آپریشن فی سیکنڈ انجام دیتا ہے۔ دانت انسانی جسم کی واحد چیز ہے جو اپنی مرمت آپ نہیں کرسکتے ہیں۔ ہر گھنٹے میں ہماری جلد کے 6 لاکھ ذرات جھڑ کر گر جاتے ہیں۔ ہر سیکنڈ میں ہمارے دماغ میں کم از کم ایک لاکھ کیمیائی تعاملات ہوتے ہیں۔ انسانی جسم میں خون کی رگوں اور نالیوں کی کل لمبائی تقریباً 45 میل ہوتی ہے۔ انسانی جسم کا عجیب و غریب کیمیائی کارخانہ جگر ہے جو 500 سے زائد مختلف کام انجام دیتا ہے۔ مرنے کے بعد ایک یا آدھے دن تک انسان کے دماغ میں برقی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ شدید ورزش کی صورت میں انسانی دل فی منٹ 200 مرتبہ دھڑک سکتا ہے۔ ہماری زبان پر ذائقہ محسوس کرنیوالے 10 ہزار غدود ہوتے ہیں۔ ایک مربع انچ جلد پر تقریباً 9 میل طویل نالیاں موجود ہوتی ہیں۔ گندی جلد کے ایک مربع انچ رقبے پر 3 کروڑ 20 لاکھ بیکٹیریاہوسکتے ہیں۔ زبان کے اوپر اور نیچے کے حصے یعنی تالو اور ہونٹ بھی ذائقہ محسوس کرسکتے ہیں۔ گھونگھوں میں اندازاً 20,000 اعصابی خلیات پائے جاتے ہیں۔ 1847ءمیں جے وائے سمپسن نے ہسپتالوں میں مریضوں کو بیہوش کرنے کیلئے کلوروفارم متعارف کرایا۔ 1848ءمیں کیولائکر نے ہموار پٹھوں کے خلیات علیحدہ کرنے کا اہم کام انجام دیا۔ 1849ءمیں ایڈیسن نے ایڈیسن مرض دریافت کیا۔ 1854ءمیں برتھیلوٹ نے گلیسرین اور روغنی تیزاب سے چکنائی یا روغنیات علیحدہ کرنے کا کام کیا۔ 1863ءمیں لیوکارٹ نے انسان میں پائے جانے والے طفیلیوں پر اپنی تصنیف پیش کی۔ 1863ءمیں ڈے وین نے بتایا کہ اگر متاثرہ مویشی کے خون کا ٹیکہ صحت مند مویشی میں لگادیا جائے تو وہ بھی اینتھریکس میں مبتلا ہوجائے گا۔ 1863ءمیں ویلڈیئر نے بتایا کہ سرطان کا مرض ایک خلیے سے شروع ہوتا ہے۔ 1865ءمیں ولے من نے انکشاف کیا کہ تپ دق وبائی مرض ہے۔ 1866ءمیں آل بٹ نے چھوٹا طبی تھرما میٹر ایجاد کیا۔