Search

ماہ ستمبر کی بات ہے کہ میں اپنی اہلیہ اور دو بیٹیوں کے ہمراہ بہاولپور سے گھر آرہا تھا میں گاڑی خود ڈرائیو کر رہا تھا اور گاڑی خاصی سپیڈ میں تھی۔ مولانا طارق جمیل صاحب کی کیسٹ لگی ہوئی تھی۔ میری توجہ مولانا صاحب کے بیان پر تھی۔ بہاولپور سے ملتان کی طرف آتے ہوئے پھاٹک سے آگے جو چوک آتا ہے جہاں سے ایک سڑک رحیم یار خان کی طرف نکلتی ہے۔ وہاں سے تھوڑاآگے سڑک کے بائیں طرف ٹرکوں کی ورکشاپس ہیں اور ہوٹل وغیرہ ہیں ٹرکوں کی اوٹ سے ایک مزدا ٹرک پیپسی کولا کی بوتلیں سپلائی کرکے سڑک کراس کرکے بہاولپور کی طرف جانے لگا۔ اس گاڑی کے ڈرائیور نے شاید ٹریفک کو دیکھا نہیں۔ میری گاڑی تقریباً150 فٹ کے فاصلے پر تھی سپیڈ کی وجہ سے بریک بھی لگاتا تب بھی ٹکر لازمی ہونی تھی۔ اس وقت میری زبان سے یکدم یہ الفاظ نکلے کہ یااللہ میں مشکل میں ہوں۔ سڑک ون وے ہے اور دونوں سڑکوں کے درمیان تقریباً ایک فٹ اونچا فٹ پاتھ ہے۔ گاڑی بھی نئی تھی اور باڈی بہت نیچی تھی مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کس طاقت نے میری گاڑی کو اٹھا کر دوسری سڑک پر پہنچا دیا میں خود حواس میں تھا۔ گاڑی کی سپیڈ کم کرکے اسے اپنی لین میں لاکر اور سائیڈ پر کھڑی کرکے گاڑی سے اترا۔ میرا یقین تھا کہ گاڑی کا فرنٹ ضرور ٹوٹ گیا ہوگا۔ کمانیاں وغیرہ کو بھی نقصان ہوا ہو گا۔ وہاں کافی لوگ اس واقعہ کو دیکھ رہے تھے۔ وہ بھی دوڑ کر گاڑی کے پاس آگئے اور دیکھنے لگے کہ کیا کچھ ٹوٹا ہے۔ سب لوگ حیران تھے کہ گاڑی کو معمولی خراش تک نہیں آئی۔ صرف ٹائر پنکچر ہوا۔ ہر آدمی وہاں یہ کہہ رہا تھا کہ اگر آپ گاڑی کے سٹیرنگ کو موڑ کر دوسری طرف لے جاتے تو ایک فٹ اونچے فٹ پاتھ پر گاڑی کا یکدم چڑھناممکن نہیں تھا اگر فرنٹ ویل چلا بھی جاتا تو سامنے اس فٹ پاتھ پر سٹریٹ لائٹ کا پول تھا۔ گاڑی اس میں لگنی تھی۔ گاڑی مشرق و مغرب کو جاتے ہوئے اچانک شمالاً جنوباً مڑی اور سڑک کے پار اس کو کسی نے احتیاط سے اٹھا کر رکھ دیا۔ اگر خود موڑتے تو اتنی سپیڈ میں گاڑی قابو نہیں آنی تھی۔ ضرور الٹ جاتی یا سڑک کے پار بہت گہری جگہ تھی اس میں جاگرتی۔ گاڑی بمعہ سواروں کا بخیریت بچ جانا کسی معجزہ سے کم نہیں۔ میرا دل کہہ رہا تھا کہ میرے اللہ نے میرے حضرت کی دعاﺅں سے اپنا خاص کرم کیا۔ سچ ہے کہ مسنون دعاوں کی برکات اور میرے حضرت کی نسبت مشکل وقت میں کام آتی ہے۔