دنیا کی ہر نعمت اسباب و وسائل اور دولت و ثروت سے حاصل کی جا سکتی ہے سوائے ہدا یت یعنی ایما ن و اسلام کے ۔ اسی طرح انسان کو ملنے والی ہر دولت کی حفا ظت بھی اسبا ب و وسائل سے ہوسکتی ہے، سوائے ایما ن و اسلام کے ۔ کس کی کون سی ادا اللہ کو پسند آئے اور اس کی طر ف سے اس کے اور اس کی نسلو ں کے ہدایت و دین پر با قی رکھنے کے فیصلے کیے جائیں کہا نہیں جا سکتا ۔ اسی طر ح یہ بھی کہا نہیں جا سکتا کہ نفس یا شیطان کے بہکا وے میں آکر انسان سے کب ایسی غلطی یا گناہ سرزد ہو جائے جس سے اللہ کے غضب و غصہ کا ظہور ہو اور ہدا یت کی نعمت چھین لی جائے ۔ ہدایت براہ را ست اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے اس پر کسی کا بس نہیں چلتا۔ اپنے اس اختیا ر کو ثابت کر نے کے لیے اللہ تعالیٰ کبھی اپنے محبوب تر ین بند وں کے قریبی عزیزوں کو بھی ان کی عین خواہش اور بار بار کی درخوا ست و دعا اور التجا کے با وجود اس دولت ایمان سے محروم رکھتا ہے ۔ ابو طا لب کے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر عظیم احسانات کے باوجود ان کو ایمان کی دولت سے محروم رکھنا اسی قبیل سے ہے ۔یہ الگ با ت ہے کہ کسی طالب حق کو اللہ تعالیٰ ہدایت سے محروم نہیں کر تا اور بلا وجہ وہ کسی سے یہ نعمت بھی نہیں چھینتا ۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ سے بڑھ کر اُس زمانہ میں شاید ہی کوئی اور اللہ کا محبو ب ترین بندہ روئے زمین پر تھا ۔ قرآن کریم کے بعد سب سے زیا دہ پڑھی جا نے والی کتا ب صحیح بخاری کی تدوین کا اللہ نے ان کو ذریعہ بنایا لیکن ان کی نسلو ں میںبھی الحاد و دہریت کی ہوائیں چلیں اورا ن کی قوم میں بھی خدابیزاری کے مظاہر دیکھنے میں آئے۔ بخارہ ان کا وطن تھا جو چند سالو ں قبل تک روس کے زیر انتظام تھا ، وہا ں کے مسلمانوں میں سرخ انقلاب کے دوران کفر و الحا د عام ہو گیا اگر چہ ان جا ں گسل حالا ت میں بھی ان ہی کی نسلو ں کے ہزاروں لو گو ں نے جس طر ح اپنے ایمان و سلام کی حفا ظت کی وہ مناظر بھی حیرت انگیز ہی تھے۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی چا ر نسلو ں تک نبوت کا سلسلہ چلا۔ موجودہ یہو دیو ں کے وہ جد امجد تھے لیکن اللہ کے غیض و غضب سے جس طر ح یہودی دوچار ہوئے اور ملعون ومغضوب قرار دیے گئے اور ضلالت و گمراہی کی جس عمیق غا ر میں جا گرے وہ ہم سب کے سامنے ہے ۔ حضرت نو ح علیہ السلام اپنے وقت کے سب سے بر گزیدہ نبی تھے لیکن خود ان کے بیٹے بھی ایما ن سے محروم رہے ۔ اس سلسلہ میں حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کی مثالیں بھی ہما رے سامنے ہیں ۔ ان سب کا خلا صہ یہ نکلا کہ ایمان جیسی نعمت سے سرفراز ہونے کے لیے نہ کسی شریف النسل حسب و نسب سے تعلق کا اللہ کے ہاں پا س ولحاظ رکھا جاتاہے اورنہ اس نعمت کے باقی رہنے کے لیے کسی نبی کی قرابت تک کا خیال رکھا جاتاہے ۔ جب نبیوں اور رسولو ں جیسے اپنے وقت کے محبو ب ترین بندوں کے رشتہ داروں اور عزیزوں کے ساتھ اللہ کا یہ معاملہ ہے تو ہم جیسے لو گو ں کی کیا حیثیت ہے ؟ ہمیں اپنے ایمان و اسلام سے متعلق کتنا ڈرتے رہناچاہیے اور کس قدر اس سلسلہ میں فکر مند ہو نا چاہیے ۔ لیکن سوا ل یہ پیدا ہو تاہے کہ نہ اس نعمت عظمی کے ملنے میں ہما را بس ہے اور نہ با قی رہنے میں ہما را اختیا ر تو ہمیں کیا کرنا چاہیے ، قرآن میں خود اللہ تعالیٰ نے اس کا طریقہ بتا یا ہے اور ایک ایسی دعا سکھائی ہے کہ اس کا استحضا ر کے ساتھ با ربار پڑھتے رہنے پر اس نعمت ایمان کے با قی رکھنے کا وعدہ خداوندی بھی ہے ۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ انسان سب سے پہلے اس عظیم نعمت پر اللہ کا بار با رشکر ادا کر تاہے اور ہدا یت کے بعد ضلالت سے یعنی ایمان و اسلام کے بعد کفر و شرک سے آئندہ کے لیے بر ابر پنا ہ بھی مانگتا رہے اور یو ں کہتا رہے کہ اے اللہ تو ہمیں ہدا یت کے بعد ضلا لت و گمراہی میں مبتلا نہ فرما اورہمیں اپنی رحمت سے نوا ز دے یعنی خاتمہ بالخیر فرما ، توہی سب کچھ دینے والا ہے : ” رَبَّنَا لَا تُزِغ قُلُوبَنَا بَعدَ اِذ ھَدَیتَنَا وَھَب لَنَا مِن لَّدُنکَ رَحمَۃً اِنَّکَ اَنتَ الوَھَّابُ “
(آل عمران آیت نمبر8)