Search

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا غیر مسلموں سے حسن سلوک امام بیہقی نے سید نا علی رضی اللہ عنہ سے روا یت کی ہے کہ ایک با ر سرکا ر دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہو دی سے کچھ اشر فیا ں قرض لیں۔ کچھ دن گزر گئے تو وہ یہو دی تقاضے کے لیے پہنچا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا : ” اس وقت میرے پا س تمہا را قرض ادا کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔“ یہو دی نے کہا : ” جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرا قر ض ادا نہ کر یں گے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں چھوڑو ں گا۔“ چنا نچہ ظہر کے وقت سے لیکر رات تک وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیرے میں لیے ہوئے بیٹھا رہا ۔ یہ زمانہ وہ تھا جب کہ مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم ہو چکی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے خلا ف ہر قسم کی کا روائی کرنے کی طاقت رکھتے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیو ں نے اسے ڈانٹ کر بھگا نا چاہا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو منع فرما دیا۔ کسی نے کہا : ” اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ایک یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قید کیے ہوئے ہے ۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہا ں ، مگر مجھ کو ظلم کرنے سے منع کیا گیا ہے۔“ اسی حال میں صبح ہو گئی ۔ جب اگلا روز شرو ع ہو ا تو یہودی کی آنکھیں کھل گئیں ۔ وہ یہ دیکھ کر بہت متاثر ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قدرت رکھتے ہوئے بھی ،برداشت کرتے ہیں اور طاقت ہو تے ہوئے بھی کوئی کاروائی نہیں کر تے ۔ یہ سب کچھ دیکھ کر وہ حلقہ بگوش اسلام ہو گیا ۔ یہو دی مدینہ کا نہایت مالدار آدمی تھا ۔ کل تک اس نے چند اشر فیو ں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھیرا ﺅ کر رکھا تھا ، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کر دار اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عفو و در گزر کی صفت نے اُس پر اتنا اثر کیا کہ اس نے اپنی ساری دولت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کر دی اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو جس طر ح چا ہیں خر چ کریں ۔ “ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جذبہ ¿ ترحم اور صفتِ رحمت میدان جنگ میں بھی رہتا تھا۔ محدثین بتا تے ہیں کہ سر کا ر دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیو ں نے میدان بد رمیں ایک پانی کا حوض اپنی ضرورت کے لیے تیا ر کیا تھا۔ لڑائی شروع ہونے سے قبل قریش مکہ کی فو ج کے آدمی اس حوض پر پانی پینے آئے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے انہیں پانی لینے سے روکنا چاہا۔ جنگی حکمت عملی کا تقاضہ یہی تھا کہ انہیں پانی نہ لینے دیا جا تا اور دشمن پر ہر قسم کی خوراک کی بند ش کر دی جا تی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”انہیں پانی لینے اورپینے سے منع نہ کر و۔“کیا دنیا ایسی مثال پیش کر سکتی ہے ؟