Search

ہمارے گائوں کے پاس دوسرے گائوں میں ایک خاندان ہے جو برسوں سے سب کے سب بھائی صرف اُوجڑی کی کڑاہی پکا کر فروخت کرتے ہیں اور تیل کے خالی ڈبے اور سوکی روٹی جب ہوٹل سے بچت ہو جاتی ہے تو وہ فروخت کرکے اس کے پیسے گھر میں اپنی بیگمات کو دیتے ہیں جس سے گھر کی عورتیں خوش ہوکر اپنے گھر کے مردوں کیلئے بہت دعائیں کرتی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کے گھروں میں کسی چیز اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کی کوئی کمی نہیں آتی۔ خاندان بھر میں بچوں کی شادیاں بھی ٹھیک وقت پر ہو جاتی ہے اور ان تمام بھائیوں کے درمیان اتفاق بھی بہت ہے‘ اپنی زندگی کے معاملات کو باہمی مشورے سے حل کرتے ہیں پہلے ان کے پاس رہنے کو گھر نہیں تھا دوسروں کی زمین پر رہتے تھے پھر زمین خریدی، ٹیوب ویل اور مسجد پہلے بنوایا اور پھر سب بھائیوں نے ایک مہمان خانہ مشترکہ بنوایا۔ پھر ایک بڑی چار دیواری کے اندر اپنے گھر بنائے اپنے گیٹ رکھوائیں اور ایک بڑا گیٹ اس چار دیواری میںرکھا جس کی وجہ سے ان بھائیوں کی کالونی مکمل ہوئی اور مسجد ٹیوب ویل، مہمان خانہ اور ان بھائیوں کے گھروں کو تحفظ بھی مل گیا‘ اس گیٹ کے رکھنے سے کبھی کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں ہوا ‘ان کے گھر اپنے حافظ قرآن بھی ہیں جو رمضان میںاپنے خاندان کی تمام عورتوں کو تراویح باجماعت پڑھواتے ہیں ایک دن جب میں بہت چھوٹی تھی تو اپنی پیاری(سہیلی دادی جان) سے اس کی وجہ پوچھی تو دادی جان نے بتایا کہ یہ رزق کی برکت ان کے خاندان میں اس لیے ہیں کہ ایک دن ایک سیّد درویش بہت بھوکے حالت میں ان کے ہوٹل پر آیا اُوجڑی خریدنے تو ان بھائیوں نے خوب کھلایا اور لسی پلائی جب وہ جانے لگے تو ان بھائیوں نے کہا (آغا جان) آپ سے پیسے نہیں لیں گے جب بھی ضرورت ہو‘ آپ ہمارے ہوٹل آکر کھالیا کریں کھانے سے تو سید بہت خوش ہوا اور بہت جذباتی ہوکر ان کے ہوٹل کے دیگجی اور کڑاہی میں چمچہ ہلانے لگا اور دعا کرتا گیا کہ (اے میرے مولا ان تمام بھائیوں کے رزق میں بے حساب برکت عطا کر دیں کہ ان کی نسل در نسل یہ کام چلتا رہے اور یہ کسی کے محتاج نہ ہو) آج اس دعا کی برکت ہے کہ شہر میں یہ سب بھائی کبابیوں کے نام سے جانے جاتے ہیں کیونکہ اُجڑی کی کباب بھی فروخت کرتے ہیں اور اللہ نے ان کو نوازا ہے سب نے حج بھی کیے ہیں اور ان کی بیگمات بھی حج کرچکی ہیں اور ہر سال ان کے گھر کا رنگ اور روغن ہوتا ہے اور پورا گھر سرسبز و شاداب ہے ۔ پیارے دوستوں یہ سب درویش کی دعا ہے اور کچھ نہیں۔(عبیدہ مہ جبین، چمن)