Search

محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! چند سال پہلے میں کراچی سے میانوالی جانے کیلئے بس میں سفر کررہا تھا۔ راستے میں کنڈیکٹر ڈرائیور آپس میں بات کررہے تھے کہ ہم نے ایک ڈرائیور سے مذاق کیا اس کو باسی کھانا کھلا دیا اس کو دست لگ گئے جب بس رکتی وہ بیت الخلاء کی طرف دوڑتا ہم میں سے ایک شخص جھوٹ موٹ بھاگ جاتا اور بیت الخلاء میں گھس جاتا۔ انہوں نے بتایا کہ سفر میں کسی سواری کا پیٹ خراب ہوجاتا ہے‘ دست آنے لگتے ہیں تو ہم اس کو چائے کی پتی جو ابھی استعمال نہ کی گئی ہو چھٹکی بھر پانی کے ساتھ دیتے ہیں‘ مریض فوراً ٹھیک ہوجاتا ہے‘ اسی سفرمیں میانوالی سے جب آگے بڑھے‘ موچھ میں بس رکی تو مجھے تقاضا ہوا‘ وہاں آگے داؤد خیل بس رکی تو پھر تقاضا ہوا آگے چلے تو بہت شدت کا تقاضا ہوا مگر بس نہ رکی‘ میں نے اللہ اللہ کرکے سفر طے کیا اور اپنی منزل سے پہلے کمرمشانی میں اتر گیا‘ وہاں اتر کر ہوٹل والے سے مانگ کر دو چٹکی کالی پتی پھانک لی‘ جس کے بعد مجھے پھر دست نہیں آئے‘ دو تین دن پہلے مجھے پانی کی طرح دست آرہے تھے‘ کئی جتن کیے مگر دست نہ رکے۔ پھر میں نے اسپغول کا چھلکا دہی میں ملا کر استعمال کیا مگر افاقہ ندارد تو میں نے پتی پانی کے ساتھ استعمال کی‘ پھر دست نہیں آیا۔ (حکیم ریاض حسین‘ مکڑوال‘ میانوالی)