Search

السلام علیکم حکیم صاحب! ہر انسان کسی نہ کسی منزل کی تلاش میں ہے‘ کسی نہ کسی چیز کے حصول کیلئے کوشاں ہے اور اس کی تگ و دو میں ہے ‘ میں ایک لڑکی ہوں لیکن عام لڑکیوں جیسے طور طریقے نہیں ‘ کبھی اپنے آپ کو سمجھنے سے قاصر ہو جاتی ہوں کہ میں کون ہوں‘ کہاں ہوں‘ کہاں تک پہنچ چکی ہوں‘ زندگی نے بہت سکھایا ۔ اب موجودہ کیفیت یہ ہے کہ جس میں تغیر بھی ہے۔ مستقل مزاجی مل جائے تو اچھی بات ہے ” اللہ ہو“ کا سبق نیم کے درخت سے حاصل کیا ‘ جب ہوا کے چلنے سے ہلتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی دیوانہ ” اللہ ہو“ کی صدا لگا رہا ہے اس لئے میں بھی اس ”ھو“ کو پانا چاہتی ہوں‘ جب اللہ کا نام زبان پہ آئے تو جسم کا رونگٹا رونگٹا ”ھو“ کی صدا لگائے۔ کبھی دنیا میں مشغول ہو جاﺅں تو پھر خیال آتا ہے کہ دنیا ایک دلفریب دھوکہ ہے ‘ اس نے مجھے رب سے دور کر دیا ‘ پھر تکلیف محسوس کرتی ہوں پھر رب سے ڈرتی بھی ہوں۔ ہم یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ دین و دنیا برابر رکھو لیکن عمل اس طرح نہیں کر پاتے۔ لیکن میرا یہ خیال ہے کہ جو دین کو تھام لے اس کی دنیا بھی سنور گئی یعنی دنیا کو اتنا قبول کرو جتنی کہ ضرورت ہے تاکہ وہ ہوس و حرص نہ بن جائے‘ ایسے انسان اللہ سے دور ہو کر دنیاوی وسائل کو خدا بنا لیتا ہے ۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ مسائل تب پیدا ہوتے ہیں جب اللہ پر توکل کم ہو جاتا ہے۔ میں قرآن بھی حفظ کر رہی ہوں‘ انسان کی نا تمام خواہشات صرف جنم لے سکتی ہیں فنا نہیں ہو سکتیں۔ سو میں ڈھل جانا چاہتی ہوں اس ذات کی محبت میں میں عشقِ ذات کی مئے پی لینا چاہتی ہوں۔ساتھ ہی قرآن کی مشغولیت بھی چاہتی ہوں۔ اللہ میری ‘ آپ کی اور قیامت تک آنے والے ہر مومن مرد اور عورت کی مغفرت فرمائے ۔ آمین ثم آمین