آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق پرست صحابہ رضی اللہ عنہ نے قیدیو ں کے ساتھ جو سلوک کیے ان کا یہ اثر ہو ا کہ اکثر قیدی حصولِ آزادی کے بعد وطن جانا پسند نہ کر تے بلکہ مسلمان ہو کر ہمیشہ کے لیے مسلمانوں ہی میں رہ جا تے تھے ۔یہ اس لیے کہ قیدی کو کچھ مدت بحالتِ قید مسلمانو ں کی تہذیبِ اخلاق اور حسنِ معاشرت کے مطالعہ کا موقع ملتاتھا۔غزوئہ بد ر سے پہلے اور اسکے بعد معاہدہ حدیبیہ تک اہل مکہ اور مسلمانو ں میں حالتِ جنگ قائم تھی ۔ قریش جہا ں پاتے، مسلمانو ں کو لوٹ کر قید کر لیتے ۔ مسلمان بھی اس کے جوا ب میں مکہ والو ں سے یہی سلو ک کر تے ۔ غزوہ بدر کے بعد قریش نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو قید کر لیا ۔ اس کے جوا ب میں مسلمانو ں نے حکم بن کیسان کو گر فتار کر لیا۔ قریش نے حکم کے چھڑوانے کے لیے زرِ فدیہ بھیجا لیکن حضرت سعد رضی اللہ عنہ قریش کی قید میں تھے لہذا اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فدیہ قبول کر نے سے انکا ر کر دیا اورحَکَم بن کیسان سے فرمایا کہ جب تک سعد رہا نہ کیے جا ئیں گے تم کو مخلصی نہ مل سکے گی۔ یہ دیکھ کر اہل مکہ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو رہا کر دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حَکَم بن کیسان کی رہا ئی کا حکم دے دیا ۔
حَکَم نے جسمانی قید سے تو مخلصی پائی لیکن چونکہ ایام اسیری میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسو ں میں بیٹھے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے تقویٰ و طہا رت اور خدا پرستی کے مناظر اپنی آنکھو ں سے دیکھ چکے تھے لہذا اسلام کا طو ق غلا می گلے میں ڈال کر سر کا ر دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی خدمت میں رہنے لگے۔