حضرت شیخ علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پچھلے کئی دن سے ایک الجھن میںمبتلا تھے‘ منصب ولایت کی تکمیل اور فریضہ تبلیغِ دین کی ادائیگی میں سب سے زیادہ کس شے کی ضرورت ہوتی ہے؟ انہوں نے ایک طویل اور ان تھک مجاہدہ کیا لیکن گرہ نہ کھل سکی‘ آخری اسی پریشانی کے عالم میں خراسان کی طرف روانہ ہوئے۔ ایک رات ایک گاؤں میں قیام ہوا‘ وہاں ایک خانقاہ بھی تھی جس میں رسم پرست افراد کا ایک گروہ رہتا تھا۔ شیخ نے سنت کے مطابق سادہ کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے‘ ان افراد نے دیکھا تو کہنے لگے: ’’ یہ شخص ہم میں سے نہیں ہے‘‘ حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ واقعی ان میں سے نہ تھے‘ مگر خانقاہ میں ٹھہرے بغیر چارہ نہ تھا‘ ان لوگوں نے انہیں نچلی منزل میں جگہ دی اور خود بالائی منزل میں چلے گئے‘ شیخ رحمہ اللہ علیہ کو سوکھی روٹی کے کچھ ٹکڑے بھجوائے اور خود عمدہ اور نفیس چیزیں کھانے لگے‘ ساتھ ہی ساتھ شیخ رحمۃ اللہ علیہ پر طنز کرتے جاتے‘ کھانے کے بعد خربوزوں کا ایک بڑا ٹوکرا اٹھالائے اور شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ایک عجیب حرکت شروع کردی‘ خربوزے کھاتے اور چھلکے شیخ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف پھینکتے۔ پیر علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ بڑے پریشان ہوئے‘ دل میں کہنے لگے: یاخدایا اگر ان لوگوں کا لباس‘ تیرے دوستوں کا سانہ ہوتا تو میں ان کی یہ حرکتیں کبھی برداشت نہ کرتا۔ وہ لوگ اپنے شغل میں ہمہ تن مصروف تھے۔ ادھر حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے دل پر رنج و اضطراب کی عجب کیفیت طاری تھی۔ ان کی طعن و تشنیع اور بدتہذیبی سے خون کھول اٹھتا‘ مگر پھر یوں محسوس ہوا جیسے کوئی صبرو تحمل کی تلقین کررہا ہے اور کہہ رہا ہے یہی تو انبیاء اور اولیاء کی عظیم الشان سنت ہے کوئی دکھ دے تو انسان نہایت صبر کے ساتھ اسے برداشت کرے اور پھر ان کا دل فرحت و انبساط سے معمور ہوگیا‘ ان کی الجھن دور ہوگئی اور وہ راز منکشف ہوگیا جس کیلئے وہ ایک عرصہ سے بے چین چلے آتے تھے۔ علی الصبح وہ اٹھے اور اپنے وطن کی طرف روانہ ہوگئے۔ نو دریافت شدہ راز آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زبان اقدس پر تھا۔ آپ فرما رہے تھے: اب میں سمجھا مشائخ طریقت جاہلوں کی سختیاں کیوں سہتے چلے آئے ہیں‘‘