Search

ہزاروں خوشیوں کو جو ہماری دسترس کے اندر ہیں ،ہم بھول جاتے ہیں اور اپنی چہیتی ایک پریشانی کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں چھوٹی چھوٹی باتو ںکی وجہ سے ہر گزپریشان نہیں ہو نا چاہئے کیو نکہ اگر ان کا خیال رکھا گیا تو پھر یہی چھوٹی پر یشانیاں بڑی بن جاتی ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ دنیا پر یشانی کی وجہ سے کبھی بھی حقیقی نہیں بلکہ صرف تصوراتی ہوتی ہے چھوٹی چھوٹی پریشانیاں اور ذراذرا سی ناکا میاں انسان کو بوکھلا دیتی ہیں اور انسان بھی عجےب ہے ۔ وہ ایک نہ ایک پریشانی کوہمیشہ کلیجے سے لگا نے کے لئے تیار رہتا ہے ۔ اکثر اوقات یہ پریشانی خود ساختہ ہوتی ہے ہزاروں خوشیوں کو جو ہماری دسترس کے اندر ہیں ،ہم بھول جاتے ہیں اور اپنی چہیتی ایک پریشانی کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور خوش کلامی و خوش مزاجی کو قرےب نہیں آنے دیتے بلکہ یوں اس کے لئے دروازے بندکئے رہتے ہیں اور صرف مایوسی کو اپنے چاروںطرف لپیٹے رہتے ہیں۔ ایسی عادات سے زندگی میں ایک خاص تبدیلی پیداہوجاتی ہے ۔ گفتگو جلی کٹی کرتا ہے ، دوسروں کے بارے میں اس کے ذہن میں ہمیشہ برائی ہی آتی رہتی ہے ۔ ایسا آدمی خودکسی سے نہیں ملتااور دوسروں کو بھی اس لائق نہیں سمجھتا کہ وہ آکر اس سے ملیں ۔ بہ الفاظ دےگر اس کا دل دنیا بھر کی تکالیف کی آماجگا ہ بنا رہتا ہے ۔ وہ خود بھی تکا لیف اٹھاتا ہے اور دوسروںکو بھی تکلیف پہنچاتا ہے ۔ مزاج کی یہ کیفیت صرف خود غرضی کی بنا پر ہوتی ہے ۔ ایسے لوگوں کو دوسر وں سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی ، قوت ارادی کا یہ ایک قسم کا غلط اور الٹااستعمال ہے کیونکہ یہ بالکل اپنے اختیار کی بات ہے اور آدمی اگر چاہے تو اس سے بچ سکتا ہے ۔ لوگ خواہ کچھ بھی بحث ومباحثہ کرتے رہیں ، انسان کو اپنے عزم اور عمل کو پوری آزادی حاصل ہے ۔اگر نیک کام کی جانب ارادہ ہے تو انسان سر فراز ہو جاتا ہے اور اگر برے راستے پر چلنے لگتا ہے تو پھر ندامت اٹھاناپڑتی ہے ۔تو یہ نظر انتخاب کی بات ہے کہ خواہ روشن پہلو پرپڑے یا تاریک پہلو پر ، آپ چاہیں تو اچھی بات کی تقلید کر سکتے ہیں اور چاہیں تو برائی سے احترازکرسکتے ہیں جس طرح ہم چاہیں خود کو بنا سکتے ہیں ۔ دنیا کے مالک صحےح معنوں میں وہی لوگ ہیں جو خوش مزج ہیں کیو نکہ دنیا انہی کی ہے جو اس سے لطف اندوز ہوسکیں ۔