Search

ایک زمانہ پہلے کی بات ہے کہ ایک علاقے میں نامی گرامی پہلوان رہا کرتا تھا وہ اپنے فن کا ماہر تھا اور سبھی لوگ اس کی طاقت اور فن کے معترف تھے کم ہی پہلوان اس کا مقابلہ کرنے کی استطاعت رکھتے تھے ایک دفعہ اس پہلوان نے علاقے کے سبھی پہلوانوں کو چیلنج کیا اور کھلے میدان میں مقابلے کی دعوت دی اور مزید یہ کہ جو اس کو ہرائے گا اس کو بہت سا انعام اور اعزاز دیا جائے گا۔ سارے علاقے میں اس کا اعلان کردیا گیا اور مقابلے کے دن کی تیاری شروع کردی گئی۔ جس دن مقابلہ تھا اس دن بہت سے لوگ جمع ہوگئے۔ پہلوان اپنے شاگردوں کیساتھ میدان میں پہنچ گیا اور مقابلے کی دعوت دی۔ سارے مجمع میں سناٹا چھا گیا اس نے پھر مقابلے کیلئے للکارا۔ دفعتاً ایک عام آدمی میدان میں اتر آیا جو کہ جسمانی ڈیل ڈول سے کسی طور بھی پہلوان معلوم نہ ہوتا تھا۔ یہ آدمی اس پہلوان کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا مقابلے کا آغاز ہوا ہی چاہتا تھا کہ اس آدمی نے پہلوان سے کہا کہ مقابلے سے پہلے اپنے کان میں میری ایک بات سن لو اس آدمی نے پہلوان کے قریب آکر آہستہ سے کہا ”میں کوئی پہلوان نہیں ہوں اور نہ ہی تم سے مقابلہ کی استطاعت رکھتا ہوں۔ اس مقابلے کیلئے تم نے بہت سا انعام و اکرام کا اعلان کررکھا ہے۔ میں ایک بہت غریب آدمی ہوں اور میری بیٹیاں ہیں جو کہ جوان ہیں ان کی شادی کرنے کیلئے میرے پاس کچھ نہیں۔ اگر تم اللہ کی رضا کیلئے مجھ سے ہار جاو تو اس انعام سے میری بیٹیوں کی شادی ہوجائیگی۔ پہلوان اس آدمی کی بات سن کر خاموش ہوگیا مقابلہ شروع ہوا اور میدان میں شورو غل شروع ہوگیا۔ پہلوان نے چند ایک داوبیچ دکھائے مگر کچھ دیر بعد اس آدمی کو اپنے اوپر حاوی کردیا اور اس سے ہار گیا۔ پہلوان کے دوستوں اور شاگردوں نے بھرے میدان میں پہلوان کی بے عزتی کی‘ لعن طعن کی حتیٰ کہ پتھر تک مارے مگر پہلوان نے کوئی جواب نہ دیا اور خاموشی سے میدان سے چلا گیا۔ اسی پہلوان کو آج ہم حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کے نام نامی سے جانتے ہیں۔ اللہ رب العزت اخلاص والوں کو ضائع نہیں کرتا اور ان کے اخلاص کی برکت سے اللہ نے ان کو بہت عزت دی اور بہت بلند مقام عطا فرمایا۔