Search

ایک عورت کا شوہر مسافر تھا اس کے بیٹے چھوٹے تھے۔ گھر اس کا گائوں میں تھا جہاں زندگی کی کوئی سہولت موجود نہیں تھی کوئی دکان مارکیٹ قریب نہ تھی‘ جہاں سے وہ روز مرہ کا سامان خرید لیتی۔ شوہر نے اس کو اجازت دے دی تھی کہ میری غیر موجودگی میں کوئی ضرورت پیش آئی تو باپردہ ہوکر خود بازارجانا‘ دوسروں کی محتاجی مت کرنا خود ہی بازار، ڈاکٹرکیلئے جاسکتی ہو۔ کیونکہ اس عورت کے گھر میں نہ مرد تھا‘ نہ ساس نہ سسر تھے جو اس کیلئے ضروری سامان گھریلو ضرورت کیلئے خرید کر لاتا۔ لہٰذا وہ مجبور ہوکر ایک دن اپنے آٹھ سالہ بیٹے کے ساتھ شہر کے مارکیٹ گئی رکشہ میں تاکہ گھر کا سامان خرید سکے۔ سودا خرید کر اس نے سوچا کہ والدین کا گھر شہر میں ہے تو ماں سے بھی ملتی چلوں‘ بیچاری بوڑھی ہے کرایہ تو ویسے بھی ادا کرنا ہے کچھ زیادہ ادا کرونگی لیکن اپنی ماں کو بھی مل لوں گی اور تھکن بھی دور ہو جائے گی جب وہ اپنی ماں کے گھر پہنچی تو سلام و دعا کے بعد اسکے بھائی نے اس کو خوب تقریر سنائی کہ کوئی نہ تھا جو تیرے لیے سودا لاتا۔ میری ڈاڑھی پر کالک ملتی ہو اگر کسی نے پہچان لیا کہ تم میری بہن ہوتو میری کیا حیثیت رہ جائے گی۔ بہن نے اس سے کہا کہ تم میرے بھائی ہوتم میرے کام کبھی نہیں آئے۔ میں نے تم کو گود میں پالا ہے تم سے بڑی ہوں اب تم مجھے عزت سکھائو گے۔ تم سب بھائیوں کے لیے سسرال سے شوہر کے آمدنی سے تمام ضروری چیزیں میں بھیجتی تھی شوہر کے ہاتھوں۔ اس وقت سب 7 بھائی چھوٹے تھے۔ اب تم نے کچھ پیسہ کما لیا ہے‘ مالی مشکلات سے نکل گئےہوتو بڑی بہن کی بے عزتی کرتے ہو‘ شرم کرو تم پر غربت لوٹ کر بھی آسکتی ہے۔ بھائی نے جواب دیا کہ بہن پہلے تم چرغے کھاتی تھی اب ہمارے چرغے کھانے کا دور ہے ہم کو خدا بھی غریب نہیں کرسکتا اور بہن کو غصے سے دھکا مارا‘ اب بہن روتے ہوئے اس کے گھر سے نکلی کہ معاف کرو بھائی غلطی سے تیرے گھرماں کو ملنے آئی‘ اگر پتہ ہوتا تو کبھی نہ آتی۔ بہن بہت تھکی ہوئی گائوں لوٹی‘ انجانےمیں اس کے منہ سے کچھ بددعائیں نکل گئیں‘ شام کو باقی بھائیوں نے فون کرکے معافی مانگ لی‘ اس کی طرف سے بہن نے کہا شکر ہے میں اپنے گھر میں خوش ہوں لیکن اس نے جو کیا اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لے‘ کچھ دن بعد بہن کی بیٹی پیدا ہوئی اس کی عیادت کو کوئی نہ آیا جب اس کی بیٹی دس دن کی ہوئی تو صبح ناشتہ پر اچانک بہن کو لینے گاڑی آگئی اور پتہ لگا کہ وہ بھائی جو بہن کو ناراض کرکے گیا تھا‘ ٹی وی انٹینا ٹھیک کررہا تھا کہ بجلی نے کرنٹ دیا اور چھت سے نیچے گر پڑا گردن ٹوٹ گئی اور مرگیا۔ (عبیدہ مہ جبین، چمن)