چار سو سال پرانا جن
قبیلہ ثقیف کا ایک شخص بیان کرتا ہے کہ میں خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دروازے پر کھڑا تھا کہ اس کے پاس حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کی اولاد میں سے ایک آدمی آیا اور کہا اے امیرالمومنین میں نے آج بہت ہی عجیب واقعہ دیکھا ہے، خلیفہ نے کہا تم نے کیا دیکھا ہے؟ کہا میں شکار کھیل رہا تھا، جب بے آب و گیاہ جنگل میں پہنچا تو وہاں پر ایک بوڑھے کو دیکھا جس کے ابرو آنکھوں پر گرے پڑے تھے اور لاٹھی کی ٹیک لگا رکھی تھی، میں نے پوچھا اے بزرگ تم کون ہو؟ اس نے کہا اپنے کام کو جائو، جس بات کے جاننے کا فائدہ نہیں اس کے درپے مت ہو، میں نے کہا کیا تم عرب والوں کے اشعار بھی نقل کرتے ہو؟ اس نے کہا ہاں، میں بھی ان کی طرح شعر کہتا ہوں، جیسے وہ کہتے ہیں، میں نے کہا تم کیا کہتے ہو؟ تو اس نے چند شعر کہے۔ میں نے کہا یہ اشعار تو نابغہ بن ذبیان کے ہیں اے شیخ! اس نے یہ شعر کہنے میں تم سے پہل کی ہے، تو وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا: خدا کی قسم ابو ہادر(نابغہ کی کنیت) میری طرف سے شعر کہتا تھا، پھر اس نے میرے گھوڑے کی گردن پر ٹیک لگائی اور کہا کہ ’’تم نے میرا بچپن یاد دلا دیا۔ خدا کی قسم میں نے یہ شعر چار سو سال پہلے کہے تھے‘‘۔ پھر میں نے زمین کی طرف دیکھا تو اس کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ درحقیقت وہ ایک جن تھا۔ (فوائد البخیرمی)۔
امام اصمعیؒ کہتے ہیں کہ ابوعمر بن العلاء کی انگوٹھی پر یہ عبارت نقش تھی ’’وہ آدمی جس کی تگ و دود دنیا ہی ہوتو وہ غرور کی رسی کو تھامے ہوئے ہے‘‘۔ میں نے ان سے اس کے نقش کرنے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ میں دوپہر کو اپنے مال و اسباب میں گھوم رہا تھا کہ ایک کہنے والے کو سنا جو یہ کہہ رہا تھا: یہی گھر ہے (یعنی یہ مال و اسباب یہیں کام آئے گا فقط) میں نے جب دیکھا تو کوئی نظر نہ آیا، میں نے پوچھا انسان ہو یا جن؟ کہا جن ہوں، اس وقت سے میں نے اپنی انگوٹھی پر اس عبارت کو نقش کرایا ہے۔