Search

 الطاف حسین حالی پانی پتی ایک انقلابی ذہن کے آدمی تھے‘ انہوں نے اردو ادب میں اصلاح کی تحریک چلائی۔ انہوں نے قدیم اردو شاعری پر سخت تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ اردو شاعری مبالغہ اور عشق وعاشقی اور فرضی خیال آرائی کا مجموعہ ہے۔ اس کے بجائے اس کو بامقصد شاعری ہونی چاہیے۔ اس کا ایک نمونہ انہوں نے خود ’’مسدس‘‘ کی صورت میں پیش کیا۔ حالی کی یہ تنقید ان لوگوں کو بہت بری لگی جو اردو شاعری پر ناز کرتے تھے اور اس کو اپنے لیے فخر بنائے ہوئے تھے۔ چنانچہ حالی کے خلاف نہایت نازیبا قسم کے مضامین شائع ہونا شروع ہوئے۔ لکھنو کا اخبار ’’اودھ پنج‘‘ اکثر نہایت برے انداز میں ان کے خلاف لکھتا اور اس کا عنوان ان الفاظ میں قائم کرتا:
ابتر ہمارے حملوں سے حالی کا حال ہے
میدان پانی پت کی طرح پائمال ہے
حالی نے ان بے ہودہ مخالفتوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ خاموشی کے ساتھ اپنا کام کرتے رہے۔ آخر کار چند سال کے بعد وہ لوگ تھک کر چپ ہوگئے۔ کسی نے حالی سے سوال کیا کہ آپ کے مخالفین کیسے خاموش ہوگئے؟ اس کے جواب میں حالی نے کسی کا نام لیے بغیر یہ شعر کہا:
کیا پوچھتے ہو کیوں کر سب نکتہ چیں ہوئے چپ
سب کچھ کہا انہوں نے پر ہم نے دم نہ مارا
جھوٹی مخالفتوں کا سب سے زیادہ آسان اور کارگر جواب یہ ہے کہ اس کا کوئی جواب نہ دیا جائے۔ جھوٹی مخالفت ہمیشہ بے بنیاد ہوتی ہے۔ اس کیلئے مقدر ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ ڈھ پڑے۔ ایسی مخالفت کا جواب دینا گویا اس کی مدت عمر میں اضافہ کرنا ہے۔ اگر آدمی صبر کرلے تو بے جڑ درخت کی طرح ایک روز وہ اپنے آپ گرپڑے گی۔ وہ کبھی دیر تک خدا کی زمین پر قائم نہیں رہ سکتی۔
جھوٹ کا سب سے بڑا قاتل وقت ہے۔ آپ آنے والے وقت کا انتظار کیجئے اور اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ وقت نے اس فتنہ کو زیادہ کامل طور پر ہلاک کردیا ہے جس کو آپ صرف ناقص طور پر ہلاک کرنے کی تدبیر کررہے تھے۔ اس تدبیر کا تعلق کسی ایک معاملہ سے نہیں جس معاملہ میں بھی خاموش انتظار کی یہ تدبیر اختیار کی جائے گی آخر کار وہ کارگر ثابت ہوگی۔