Search

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں چھوڑ دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ کر جارہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ میرے ساتھ تمہاری وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون ؑ کی حضرت موسیٰ ؑسے تھی البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ (امام مسلم) حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ اٹھا کر دعا کررہے تھے کہ یااللہ! مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک میں علی کو (واپس بخیروعافیت) نہ دیکھ لوں۔ (ترمذی‘ طبرانی) حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارو مہاجرین کے درمیان اخوت قائم کی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ روتے ہوئے آئے اور عرض کیا یارسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام میں بھائی چارہ قائم فرمایا لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو۔“ (ترمذی‘ حاکم) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ناراضگی کے عالم میں ہوتے تو ہم میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کسی کو کلام کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ (امام طبرانی‘ حاکم) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیت مباہلہ: ”آپ فرمادیں آو ہم اپنے بیٹوںکو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلائو “ نازل ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ ‘ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ ‘ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بلایا‘ پھر فرمایا: یااللہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔“ (مسلم‘ ترمذی) حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں اور مردوں میں سب سے زیادہ محبوب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ (ترمذی‘ حاکم) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭