Search

اب قاضی صاحب نے خانقاہ کے ناظمین کو حکم دیا کہ راتوں رات بہت سارا حلوہ تیار کیا جائے اور ڈھاک کےدو تین سو پیالے منگوا کر حلوہ ان میں سجایا جائے کہ کتوں نے صبح آنا ہے۔ خانقاہ کے لوگ حیران و پریشان ساری رات حلوہ پکاتے رہے۔ صبح ہوئی تو یہ قصّہ سارے قصبے میں مشہور ہو چکا تھا کہ قاضی صاحب کتوں سے دعا کروانے والے ہیں۔ قصبے کے لوگ صبح سویرے ہی خانقاہ کے پاس جمع ہونا شروع ہو گئے - وہ سات افراد جو قاضی صاحب کوگزشتہ دن چیلنج کرکے گئے تھے وہ بھی آن موجود ہوئے - گرمی اپنے جوبن پر تھی‘ خدمت گزار گلیوں کی صفائی کے بعد ڈھاک کے حلوہ بھرے پیالے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر رکھنا شروع ہو گئے ۔ وہ ابھی اس کام سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ مجمع میں ایک سراسیمگی پھیل گئی کہ کوئی انہونی بات ہونے والی ہے - ہر بندہ اپنی جگہ دم بخود تھا۔ اچانک ایک گلی سے ایک کالے رنگ کا کتا نمودار ہوا۔ اس کے پیچھے بیس بائیس کتوں کی ایک لمبی قطار تھی۔ تمام کتے قطار بنا کر قاضی صاحب جو خانقاہ کے باہر بیٹھے ہوئے تھے ان کے پاس آکر چپ چاپ بیٹھ گئے۔ قاضی صاحب نے اپنا ہاتھ بلند کیا تا کہ مجمع کے لوگ کسی بھگدڑ کا مظاہرہ نہ کریں۔ کتوں کا لیڈر "کالا کتا" قاضی صاحب کے قدموں میں آ کر بیٹھ گیا‘ جیسے حکم کا غلام ہو۔ قاضی صاحب نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور پھر با آواز بلند کہا "تمام کتے جائیں اور حلوہ کھائیں" کتوں نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور تین تین کی ٹولیوں میں بٹ گئے اور بغیر کسی’’کتا پن‘‘ کا مظاہرہ کیے حلوہ کھانے میں مصروف ہوگئے - قصبے کے ہر شخص کے بشمول ان سات نوجوانوں کے حواس رخصت تھے- سب دم بخود تھے کہ پتا نہیں اب کیا ہوتا ہے‘ کتے جب تمام حلوہ چٹ کر گئے تو قاضی صاحب اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور بلند آواز سے کہا کہ " اب کتے الله سے ابر رحمت کی دعا کریں" - کتوں نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر عجیب و غریب انداز میں رونا شروع کردیا۔ ان کی اس عجیب و غریب غراہٹ سے وہاں پر موجود لوگوں کے دل بیٹھے جا رہے تھے ۔ تھوڑی دیر غرانے کے بعد کتے قطار بنا کر واپس اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف روانہ ہوگئے۔ اب قاضی عبدلحکیم نے دعا کے لئے ہاتھ بلند کردیے اور ساتھ ہی لوگوں نے بھی ہاتھ بلند کردیے اور گڑگڑا کر الله کے حضور گریہ کرنے لگے- تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ آسمان پر ایک گہری گھٹا چھا گئی اورپھرزبردست بارش شروع ہو گئی ۔