مختصراً یہ بھی بتاتا چلوں کہ توجہات ہوتی کیا ہیں؟
اس بات کو سمجھانے کے لیے ایک مثال سے واضح کرتا ہوں۔ میں ایک استاد بھی رہا ہوں اور ہائی سکول کے بچوں کو انگلش گرائمر پڑھاتا تھا۔ میرا کہنا یہ ہوتا کہ جو بچہ پوری توجہ اور یکسوئی سے مجھ سے انگلش گرائمر پڑھ لے وہ نہ تو غلطی کرے گا اور نہ ہی بھولے گا۔ یہ اس وجہ سے تھا کہ میں پڑھاتے ہوئے پوری توجہ طالب علم پر مرکوز رکھتا تھا جس سے سبق پوری طرح سے بچہ کے ذہن پر نقش ہو جاتا تھا۔
اسی طرح ماں کی توجہات ہیں ایک ماں استقرار حمل سے بچہ کی پیدائش تک خیالی تانے بانے بُنتی ہے خاکہ بناتی ہے اور اس میں رنگ بھرتی ہے اور اس طرح تخلیقی عمل سے گزرتی ہے یہ سب خیالات اس کے بچہ پر پڑتے ہیں بچہ ماں کی توجہ کا اثر لے کر ان صفات سے متصف ہوتا ہے۔ ماں کی توجہ جتنی زیادہ ہوگی بچہ پر اس کے اثرات اسی قدر گہرے ہونگے۔پیدائش کے بعد یہ سلسلہ رُک نہیںجاتا۔ بچہ کی پرورش ماں کا فل ٹائم جاب ہے۔ اس میں غفلت بچہ سے دوری کا سبب بنتا ہے جس سے بچہ میں خوف ٹینشن،پریشانی، ڈپریشن اور تنہائی جیسی خوفناک چیزیں پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں اور لامحالہ بچہ کی شخصیت کومتاثر کرتی ہیں۔
اسی طرح بچہ قربت سے خصوصی طور پر گود میں چڑھ کر اپنے آپ کو زیادہ محفوظ اور پرسکون محسوس کرتا ہے اور خوش ہوتا ہے۔ اس کے اندر ہمدردی، محبت،اعتماد پیدا ہوتا ہے جو اس کی شخصیت میں مثبت انداز فکر پیدا کرتے ہیں۔
ماں کی توجہات بلاطلب اور بلامعاوضہ ہوتی ہیں۔ جبکہ استاد اور مرشد کے معاملہ میں ایسا نہیں ہے۔ ان کے لیے طلب کا ہونا لازمی ہے جس میں خلوص بھی ہو دوسری چیز مالی، بدنی خدمت جس کے بغیر ان سے توجہات کا فیض حاصل نہیں ہوتا۔ہوسکتا ہے کچھ لوگ ان باتوں میں یقین نہ رکھتے ہوں۔ ان سے عرض ہے کہ ہپنائزم اور مسمریزم جیسے علوم بھی تو توجہات ہی کے مرہون منت ہیں اسی طرح سے توجہات سے اچھی یا بُری خصلتیں پروان چڑھتی ہیں۔ بات سمجھنے کے بعد امید ہے مائیں پوری توجہ اور یکسوئی سے بچوں کی پرورش کریں گی۔