Search

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھے یمن کی طرف قاضی بنا کر بھیجا۔ میں عرض گزار ہوا: یارسول اللہ ﷺ آپ ﷺ مجھے بھیج رہے ہیں جبکہ میں نوعمر ہوں اور فیصلہ کرنے کا بھی مجھے علم نہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ عنقریب تمہارے دل کو ہدایت عطا کردے گا اور تمہاری زبان اس پر قائم کردے گا۔ جب بھی فریقین تمہارے سامنے بیٹھ جائیں تو جلدی سے فیصلہ نہ کرنا جب تک دوسرے کی بات نہ سن لو جیسے تم نے پہلے کی سنی تھی۔ یہ طریقہ کار تمہارے لیے فیصلہ کوواضح کردے گا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ اس دعا کے بعد میں کبھی بھی فیصلہ کرنے میں شک میں نہیں پڑا۔ (ابوداؤد‘ ابن ماجہ‘ نسائی)
حضرت ابوحازم حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو ابوتراب سے بڑھ کر کوئی نام محبوب نہ تھا جب انہیں ابوتراب کے نام سے بلایا جاتا تو وہ خوش ہوتے۔ راوی نے ان سے کہا ہمیں وہ واقعہ سنائیے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا نام ابوتراب کیسے رکھا گیا؟ انہوں نے فرمایا: ایک دن حضور نبی اکرم ﷺ خاتون جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہٗ گھر میں نہیں تھے آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارا چچازاد کہاں ہے؟ عرض کیا: میرے اور ان کے درمیان کچھ بات ہوگئی جس پر وہ خفا ہوکر باہر چلے گئے اور گھر پر قیلولہ بھی نہیں کیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے کسی شخص سے فرمایا جاؤ تلاش کرو وہ کہاں ہیں؟ اس شخص نے آکر خبر دی کہ وہ مسجد میں سورہے ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ حضرت علی رضی اللہ عنہٗ کے پاس تشریف لے گئے۔ آپ ﷺ نے دیکھا کہ وہ لیٹے ہوئے ہیں جبکہ ان کی چادرمبارک ان کے پہلو سے نیچے گرگئی تھی اور ان کے جسم مبارک پر مٹی لگ گئی تھی۔ حضور نبی اکرم ﷺ اپنے ہاتھ مبارک سے وہ مٹی جھاڑتے جاتے اور فرماتے جاتے: اے ابوتراب (مٹی والے)!اٹھو‘ اے ابوتراب اٹھو!‘‘ (یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ امام مسلم کے ہیں۔)