Search

ہمارا جو باب چل رہا ہے جس کو میں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے واقعے سے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ کیسے مرشد اور مصلح کے ساتھ چلا جاتا ہے اور اس کے آداب کیا ہیں؟ یہ ہمیں اس واقعے سے پتہ چلتا ہے۔ میرے شیخ رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ کبھی تصوف اور روحانیت کی کتاب جس طرح بخاری شریف طلباء استاد سے پڑھتے ہیں اسی طرح یہ کشف المحجوب بھی کسی استاد سے پڑھنا اور معرفت کی کوئی بھی کتاب کسی استاد سے پڑھنا۔ اگر استاد سے پڑھوگے تو فتنوں سے بچے رہوگے اور دوسروں کو بچاتے رہوگے ورنہ خود بھی گمراہ ہوگے اور دوسروں کو بھی گمراہ کروگے۔
ایسے ایسے فتنے آتے ہیں کہ بندہ اپنے آپ کو ہدایت پر سمجھتا ہے لیکن ہوتا فتنے پر ہے۔ پیرعلی ہجویری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سابقہ ابواب میں کئی فتنوں کا ذکر کیا ہے جو اس دور میں تھے اور آئندہ ابواب میں فتنوں کا تذکرہ آئے گا۔ اللہ والوں کی زندگی اٹھا کر دیکھیں ان کو جس چیز نے سب سے زیادہ نفع دیا اور میرے حضرت بھی فرمایا کرتے تھے کہ دو پر راہ سلوک اور راہ تصوف میں ہمیشہ پرواز کرواتے ہیں ایک اعتماد کا پر اور ایک اطاعت کا پر۔ پرندے کے بھی دو پر ہیں اگر ایک نہیںتو اڑنے کے قابل نہیں اگر اعتماد بھی سوفیصد ہو کہ نبوی ﷺ تعلیمات میں خیر ہی خیر ہے سکون ہی سکون ہے اور میرے مرشد اور میرے شیخ جو میری راہ سلوک میں تربیت کررہے ہیں ان کی ماننے میں ہی عافیت اور برکت ہے میری سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ عقل مانے نہ مانے‘ شعور ساتھ دے نہ دے لیکن شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے وہ جو حکم فرمائیں گے اس پر سوفیصد ان کی اطاعت ہو۔ یہی دو پر سالک کو پرواز کرواتے ہیں اور معرفت کی منازل طے کرواتے ہیں۔اس کی زندہ مثال پیرعلی ہجویری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ہے کہ جب ان کے شیخ نے حکم فرمایا کہ علی (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) لاہور ہجرت کرجاؤ تو عرض کیا کہ وہاں تو پہلے ہی دین کا کام ہورہا ہے۔ شیخ نے فرمایا جو کہا ہے اس پر عمل کرو۔ آپ حکم کے مطابق چل پڑے جب لاہور پہنچے تو دیکھا کہ میراں حسین زنجانی رحمۃ اللہ علیہ کا جنازہ جارہا ہے۔ پھر شیخ کے حکم کی حکمت سمجھ میں آئی